1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جی ٹوئنٹی اجلاس میں اوباما کا استقبال امریکی توقعات کے خلاف

صائمہ حیدر4 ستمبر 2016

اگر امریکی صدر باراک اوباما اپنی صدارتی مدت کے اختتام سے قبل دنیا کی بیس بڑی معیشتوں کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے ایشیا کے آخری دورے پر ایک باوقار آغاز کی توقع رکھتے تھے تو وہ درست نہیں تھے۔

https://p.dw.com/p/1JvWN
China G20 Gipfel in Hangzhou - Barack Obama
صدر اوباما کا کہنا ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہؤاتصویر: Reuters/J. Ernst

چینی حکام اور وائٹ ہاؤس کے عملے اور دیگر سفارت کاروں کے درمیان محاذ آرائی کی فضا امریکی طیارے ایئر فورس ون کے چینی شہر ہانگ جو میں اترنے کے فوراﹰ بعد ہی سے پیدا ہو گئی تھی۔ اس کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا جب صدر اوباما کے جہاز سے اترنے اور ریڈ کارپٹ تک پہنچنے کے لیے کوئی سیڑھی موجود نہیں تھی۔ دوسری بد مزگی تب ہوئی جب ایک چینی اہل کار نے امریکی صدارتی مشیر سے اس بات پر بحث کی کہ صدر اوباما کے ساتھ آئے صحافیوں کو کسی بھی مقام پر ان کے آس پاس رہنے سے منع کیا جائے۔ یہ اس روایت کی خلاف ورزی تھی جس کی پاس داری امریکی صدر کےکسی بھی غیر ملکی دورے کے موقع پر کی جاتی ہے۔

جب امریکی صدارتی مشیر نے اصرار کیا کہ امریکا اپنے صدر کے لیے ضابطے خود طے کرے گا تو چینی اہل کار نے اس پر بلند آواز میں یہ جواب دیا، ’’یہ ہمارا ملک اور ہمارا ایئرپورٹ ہے۔‘‘

China G20 Gipfel in Hangzhou - Gruppenbild
جی ٹوئنٹی اجلاس میں دنیا کی بیس بڑی معیشتوں کے سربراہان شرکت کر رہے ہیںتصویر: Reuters/J. Denzel

یہ تنازعہ اس وقت مزید بڑھ گیا جب ایک دوسرے چینی اہل کار نے صدر اوباما کی قومی سلامتی کی مشیر سوسن رائس کو ان سے دور رکھنے کی کوشش کی۔ رائس، جو امریکی حکومت کے اعلی ترین افسران میں سے ایک ہیں، چینی اہل کاروں کی جانب سے خوش آمدید کہنے کے اس انداز پر نا خوش نظر آئیں۔ ایک صحافی کے سوال کے جواب میں رائس کا کہنا تھا، ’’انہوں نے وہ کیا ہے جس کی ہمیں توقع نہیں تھی۔‘‘

بعد ازاں صدر باراک اوباما نے ان چینی عہدے داروں کی جانب سے تکرار کے حوالے سے کہا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی اوباما نے یہ بھی تسلیم کیا کہ جی ٹوئنٹی جیسے بڑے سربراہی اجلاس کی میزبانی میں ایسے واقعات ہو جاتے ہیں اور یہ صرف چین تک محدود نہیں۔ اوباما نے مزید کہا، ’’جب ہم ایسے دوروں پر جاتے ہیں تو اپنی اقدار اور نظریات ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ ایسے واقعات کسی حد تک ملکوں کے درمیان تناؤ پیدا کر سکتے ہیں۔‘‘

کشیدگیوں میں تبادلے کا یہ سلسلہ تب سے ہی جاری ہے جب اوباما نے چینی شہر ہانگ جو میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کی تیاری شروع کی تھی۔ سب سے پہلے امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے ایک صحافی کو گلوبل وارمنگ پر ہوئے ایک اجلاس میں داخلے سے نام کے مسئلے پر روک دیا گیا تھا، تاہم بعد ازاں امریکی سفارت خانے کی مداخلت پر انہیں داخلے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اسی طرح دو چینی عہدے دار، جن میں سے ایک امریکی وفد کی معاونت پر مامور تھا، ایک موقع پر ایک دوسرے سےہاتھا پائی پر اتر آئے تھے اور انہیں الگ کرنا پڑا تھا۔