1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جی۔20 کانفرنس

افضال حسین13 نومبر 2008

جمعہ کے روز سے جب واشنگٹن میں G-20 گروپ کے ریاستی و حکومتی سربراہوں کی کانفرنس شروع ہو گی تو اس میں امریکہ کے نو منتخب صدر بارک اوباما شامل نہیں ہو گے ۔ ان کی توجہ اس وقت ملکی اقتصادیات کو تباہی سے بچانے میں لگی ہے۔

https://p.dw.com/p/FuEt
عالمی خوشحالی میں G-20 ملکوں کی شرکت85 فی صد اور عا لمی آبادی میں ان کا تناسب دو تہائی ہے۔تصویر: AP

اس بارG-20 کانفرنس کی قیادت بش کے ہاتھ ہو گی۔ اس بات کے آثار کم ہی دکھائی دیتے ہیں کہ مستقبل کے امریکی صدر کے بغیرصنعتی ترقی یافتہ اور ترقی کرنے والے ملکوں کے حکومتی اور ریاستی سربراہ عالمی مالیاتی نظام میں اصلاحات لانے کی کسی حکمت عملی پر متفق ہو پائیں گے۔

G-20 ملکوں میں 7صنعتی ترقی یافتہ ممالک یعنی امریکہ، جاپان، جرمنی ، فرانس، برطانیہ، کینیڈا اوراٹلی سمیت ترقی کی دہلیز پر کھڑے ممالک ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، چین، بھارت، انڈونیشیا، میکسیکو، روس، ترکی، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، اور جنوبی کوریا شامل ہیں جبکہ 20 ویں شرکت یورپی یونین کی ہے جس کی نمائندگی فرانس کر رہا ہے جو اس وقت یونین کا صدر ہے۔ عالمی خوشحالی میں G-20 ملکوں کی شرکت85 فی صد اور عا لمی آبادی میں ان کا تناسب دو تہائی ہے۔

ایک طرف جہاں یورپی ممالک عالمی مالیاتی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں وہاں دوسری طرف امریکہ محض ایک ً ایکشن پلان ً کی وکالت کر رہا ہےجبکہ ترقی کی دہلیز پر کھڑے ممالک، عالمی مالیاتی اداروں مثلاً عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈز کے امور میں اپنے حق رائے د ہی میں اضافہ چاہتے ہیں۔

دریں اثنا وائٹ ہاؤس نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی بحران سے نبٹنے کی اس پہلی کانفرنس سے اہم نتائج برآمد ہوں گے۔ اس سلسلے میں ابھی مزید ملاقاتیں اور کانفرنسیں منعقد ہوں گیں۔

ادھر ایک جاپانی اخبار نے اطلاح دی ہے کہ ٹوکیو موجودہ کانفرنس میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو تقریبا ً 100ارب ڈالر کی پیشکش کرے گا تا کہ اس کے زرمبادلہ کے محفوظ ذخائر میں اضافہ کیا جا سکے۔ اس طرح یہ ادارہ مالیاتی بحران سے شدید متاثر ہونے والے ترقی پذیر ملکوں کی بہترمدد کر سکے گا۔