1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حالیہ انتخابات پر جھوٹی خبروں کے اثرات

7 اگست 2018

عام انتخابات کا غلغلہ تھمنے کو ہے۔ دھاندلی کی تھاپ اور تبدیلی کی سرگم پر ہم وہی پرانی دھنیں سن رہے ہیں، جن پر ناچنے والے بھی پرانے ہیں اور ایکسٹرا اپنے اپنے ’ٹھمکوں‘ کی تعداد اور ٹائمنگ پر توتکار میں مصروف ہیں۔

https://p.dw.com/p/32jss
55 | Session | Digital rights: A global action plan
تصویر: DW/U. Wagner

نیا تھیٹر شروع ہوا چاہتا ہے بلکہ شروع ہو چکا ہے۔ سٹیج کی سجاوٹ، ملبوسات کی آزمائش اور مکالموں کو رٹنے رٹانے کے مراحل بھی سکرپٹ کا حصہ ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ مخصوص گیلری میں بیٹھے خصوصی مہمان دراصل ہدایت کار اور پروڈیوسر ہیں۔ ان سب کے ہاتھوں میں چھوٹے بڑے موبائل فون ہیں،کچھ کانوں سے لگے،کچھ آنکھوں اور ہونٹوں کے سامنے، چمکتے ہوئے۔

اور یہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ اس تھیٹر میں بطور اداکار منتخب ہونے کے لیے امیدواروں کو جو جنگ لڑنا پڑی ہے، اس میں ان موبائل فونز نے مرکزی ہتھیار کا کام دیا ہے۔ اس جادوئی آلے سے رابطے بھی ہوئے، معلومات کی ترسیل بھی ہوئی اور مخالفوں کے خلاف جھوٹی خبریں بھی پھیلائی گئیں۔ پہلے یہ کام سینہ بہ سینہ کیا جاتا تھا یا اس کے لیے پمفلٹ وغیرہ چھاپے جاتے تھے۔ تقاریر میں لوگ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے تھے لیکن پھر بھی اس کا پھیلاؤ اس قدر کبھی نہ تھا۔ سوشل میڈیا نے ڈانسروں، ہدایت کاروں، کیمرہ مینوں اور ’انٹرٹینمنٹ‘ پر معمور صحافیوں کا کام آسان تو کیا ہے لیکن ’کلچر‘ کو پستی کی جانب بھی دھکیل دیا ہے۔             

انتخابات کے دنوں میں جھوٹی خبروں کا پھیلاؤ یا پروپیگنڈہ کوئی انہونی بات نہیں۔ دنیا بھر میں، کہیں کم کہیں زیادہ، یہی کچھ ہوتا ہے۔ آج کل یہ کام عام میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی کیا جاتا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس کام کے لیے سوشل میڈیا انتہائی کارگر ثابت ہوا ہے۔ تاہم ترقی یافتہ دنیا کے برعکس پاکستان جیسے پسماندہ معاشروں میں جھوٹے بیانیوں اور جھوٹی خبروں کے نقصانات بہت گہرے ہوتے ہیں کیونکہ یہاں نہ صرف یہ کہ تعلیم کی کمی ہوتی ہے بلکہ خبر کی صداقت کو جانچنے کا کوئی قابل عمل نظام بھی نہیں ہوتا۔                             

پاکستان میں، جہاں بیسیوں نیوز چینل دن رات چل رہے ہیں اور ان میں سے ہر کوئی ہر کسی پر سبقت لے جانے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ ’بریکنگ نیوز‘ کے خبط نے جھوٹی خبروں کا سیاسی کلچر رائج کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف اخبارات و جرائد کی اشاعت میں کمی اور آن لائن میڈیا میں اضافے کی وجہ سے قاری اور ناظر کے لیے خبروں کا ایک ایسا ’سیلاب‘ امڈ آیا ہے کہ جس کی تصدیق اس کے لیے ممکن نہیں۔ سچ یہ ہے کہ ایک آدھ اخبار اور نیوز چینل کے سوا باقی تمام گھٹیا درجے کی بازاری صحافت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، جسے عام طور پر سنسنی خیزی پر مبنی ’زرد صحافت‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

عام انتخابات، سوشل میڈیا اور جھوٹی خبریں

روزنامہ ڈان نے 2017ء میں ایک سروے رپورٹ شائع کی تھی، جس میں 1705 افراد سے پوچھا گیا تھا کہ کس میڈیا میں جھوٹی خبروں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ تو 87 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا جھوٹی خبروں سے بھرا ہوتا ہے۔ اس کے بعد ویب سائٹس، پھر ٹیلی ویژن اور پھر اخبارات کا نمبر آتا ہے۔ اس سروے رپورٹ سے ایک رجحان کی وضاحت ہوتی ہے۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا صارفین کی ایک غالب تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس رجحان سے نہ صرف یہ کہ سیاسی کلچر میں منفیت پیدا ہو رہی ہے بلکہ نوجوان نسل میں اخلاقیات کے عمومی تصور میں بگاڑ آیا ہے کہ جس میں دشنام، جھوٹ، افواہ وغیرہ سبھی کچھ قابل قبول ہو گیا ہے۔

مارچ  2018ء  میں ایک خبر پھیلائی گئی کہ مسلم لیگ ن نے آئندہ انتخابات میں دھاندلی کے لیے معروف کمپنی ’کیمرج اینالیٹیکا‘ کی خدمات حاصل کیں ہیں۔ اس کمپنی کے متعلق افواہ تھی کہ اس نے امریکی انتخابات میں اثرانداز ہونے کے لیے پانچ کروڑ جعلی فیس بک اکاؤنٹ بنائے تھے۔ لیکن چونکہ اس خبر میں کہیں کوئی حوالہ نہیں تھا لہذا تھوڑے ہی عرصہ میں یہ میڈیا سے غائب ہو گئی تاہم برسراقتدار حکومت کی ساکھ خراب کرنے اور اس کے بارے میں شکوک و شبہات جنم دینے کا کام بخوبی کرگئی۔ معروف جریدے دی ڈپلومیٹ کے مطابق، ’’تقریباﹰ ہر سیاسی جماعت اپنے مخالفین کے مقابلے میں متعدد جعلی فیس بک اور ٹویٹراکاؤنٹ چلا رہی ہے۔‘‘

اسی طرح سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی اہلیہ کی بیماری، علاج اور ’رحلت’ کے بارے میں جھوٹی خبروں کا بازار گرم کیا گیا۔ اس نوعیت کی سوشل میڈیا پوسٹس سے ایک ذہنی خلجان پیدا ہوتا ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ ایک نوعیت کا ذہنی تشدد ہوتا ہے۔ پھر فاروق بندیال کو پی ٹی آئی میں شامل کرنے والی خبر کو لیجیے۔ سوشل میڈیا پر ایک ردعمل سامنے آیا، جس کے بعد اس جماعت نے یہ فیصلہ واپس لے لیا۔ اس کے بعد فلم سٹار شبنم کے نام سے ایک جعلی اکاؤنٹ بنایا گیا اور فاروق بندیال کو پارٹی میں شامل نہ کرنے کے لیے شکریہ ادا کیا گیا۔ اس جعلی پوسٹ پر چند گھنٹوں کے اندر اندر اس قدر ردعمل آیا کہ مرکزی میڈیا نے بھی اسے چلا دیا۔ اس طرح ایک جھوٹی خبر سے ایک پارٹی کی ساکھ بڑھانے کی کوشش کی گئی۔                      

دوسری طرف عمران خان کے خلاف ایک پوسٹ کی صورت حال ملاحظہ فرمائیے۔ اس کے مطابق، ’’خدا کی پناہ، ممکنہ خاتون اول جنات سے رابطے میں ہیں۔ آپ کس کو ووٹ دینے جا رہے ہیں، جس کی بیوی تعویز گنڈے کر رہی ہے۔ جنات کو بنی گالہ گھر میں کچا گوشت کھلا رہی ہے اور دیواروں سے باتیں کرتی ہے۔ اس کے کہنے پر عمران خان اپنے جسم پر معجون مل کر چلہ کرتا ہے۔‘‘ یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ اس پوسٹ میں سرے سے دشنام اور افواہ سازی سے کام لیا گیا ہے اور اس کی تصدیق کا کوئی حوالہ موجود نہیں۔ اور یہ دیکھنا بھی آسان ہے کہ اس نوعیت کی خبروں نے کس طرح ان انتخابات کے ماحول کو مکدر کیا۔                            

2018ء  میں روزنامہ پاکستان ٹوڈے نے ایک سروے کیا۔ اس کے مطابق، ’’91 فیصد قارئین و ناظرین کو علم ہے کہ پاکستان میں جھوٹی خبروں کا ایک عمومی رجحان موجود ہے۔ 75 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ ایسی کسی خبر کو شیئر کرنے سے پہلی اس کی تصدیق کر لیتے ہیں۔ تاہم 82 فیصد  نے تسلیم کیا کہ انہوں نے کئی خبروں کا یقین کر لیا تھا، جو بعد ازاں جھوٹی ثابت ہوئیں۔‘‘

 اسی سروے سے سامنے آیا کہ 16 سے 34 برس کی عمر کے بیشتر لوگ خبروں کے لیے فیس بک، ٹویٹر، بلاگز اور دیگر آن لائن ذرائع پر انحصار کرتے ہیں جبکہ 35 برس سے زائد عمر کے لوگ اخبارات اور ٹی وی پر انحصار کرتے ہیں۔ ان اعداد وشمار سے اندازہ کیجیے کہ کس طرح ہماری نوجوان نسل کو ذہنی پراگندگی کا شکار کیا جا رہا ہے۔                                        

اس حوالے سے ایک بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو خصوصاﹰ نوجوانوں کو بتایا جائے کہ جھوٹی خبر کیا ہوتی ہے اور اس کی تصدیق کے عمومی طریقے کیا ہوتے ہیں؟

 ایک عالمی تنظیم، ’نیٹ ورک برائے اخلاقی صحافت‘ کے مطابق، ’’جھوٹی خبر وہ خبر ہے جسے دانستہ طور پر اپنے قارئین، سامعین یا ناظرین کو گمراہ کرنے کے مقصد سے گھڑا گیا ہو۔‘‘ جھوٹی خبر سے بچنے کے طریقے بھی بہت واضح ہیں۔ ایک سے زیادہ ذرائع سے تصدیق کیجئے اور دیکھیے کہ خبر کا منبع یا مصنف کون ہے۔ تیسری بات یہ کہ کیا اس خبر کو اچھی ساکھ والے مرکزی میڈیا نے لیا ہے یا نہیں۔ 

کیا پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اور ’نیکی بدی‘ کی تازہ ترین تفریق پر مشتمل سیاسی اور اقتداری تھیٹر کے موجودہ کرداروں سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک اتفاق رائے قائم کر لیں کہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے، اس مصنوعی ہار جیت کے لیے، اپنی نسلوں کے کردار کو داؤ پر نہیں لگائیں گے اور مخالف کو نیچا دکھانے کے لیے جھوٹ سے پرہیز کریں گے؟

باقی ٹھمکوں کی تعداد اور ٹائمنگ پر توتکار جاری رکھیے، مخصوص گیلری کی طرف دیکھ دیکھ کر غمزہ و عشوہ و ادا کا کھیل کھیلتے رہیں کہ یہ بھی سکرپٹ کا حصہ ہے۔                  

بلاگ: نگہت داد

ترجمہ : شیراز راج

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔