1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حقیقی دنیا سے زیادہ پیچیدہ، خواب کی دنیا

عاطف توقیر29 جنوری 2009

خواب ہمیشہ سے نیند سے متعلق تحقیق کرنے والے محققین اور سائنسدانوں کے لئے دلچسپی کا باعث رہے ہیں۔ ایک دنیا تو وہ ہے جسے آپ آنکھیں کھول کر دیکھتے ہیں مگر ایک دنیا ایسی بھی ہے جو آپ کی آنکھیں بند ہوتے ہی آپ کی منتظر ہوتی ہے

https://p.dw.com/p/GP8G
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ گہری نیند میں خواب نہیں آتےتصویر: AP

عالم بیداری یا شعوری زندگی کی اپنی مشکلات ہیں مگر عالم خواب اپنے اندر ایک اور پیچیدہ دنیا لئے ہوئے ہیں۔ سائنس دان اب تک واضح طور پر کسی ایسے حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ خواب اصل میں ہیں کیا اور ان کے حقیقی محرکات کیا ہوتے ہیں۔

تاہم سائنسی تحقیق سے یہ بات سامنے ضرور آئی ہے کہ خوابوں کا دورانیہ چند مائکرو سیکنڈز سے کچھ ثانیوں تک ہو سکتا ہے۔

Schläfer im Park
ایک پارک میں پرسکون ہوا میں سوئے ہوئے کچھ لوگتصویر: AP

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ عالم شعور میں ذہن میں ریکارڈ ہونے والے واقعات جو لاشعور میں ذخیرہ ہوتے رہتے ہیں رات کو شعور کے کم فعال ہونے پر ایک رپورٹ کی صورت میں سامنے آ جاتے ہیں۔

سائنسدانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ خوابوں کا محرک آنکھوں کی پتلیوں کی بے ترتیب حرکت ہوتی ہے۔

جدید سائنسی تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ خواب جھماکوں یا fleshes کی صورت میں آتے ہیں۔

اس حوالے سے ڈوئچے ویلے نے تفصیلی گفتگو کی آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کراچی کے شعبہ دماغی و نفسیاتی ہسپتال کے ڈاکٹر طیب عارفین سے۔

Ausländische Besucher schlafen auf der CeBIT
ماہرین کا خیال ہے کہ خوابوں کی صورت میں دماغ اپنے تخمینوں سے انسان کو کچھ بتانے کی کوشش کرتا ہےتصویر: AP

ڈاکٹر طیب عارفین کا کہنا تھا کہ خواب عمومی طور پر کچی نیند میں آتے ہیں یعنی خوابوں کا اصل وقت نیند کے آغاز یا اختتام کے قریب کے وقت ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے مریض جو برے خوابوں کے حوالے سے معالج کا رخ کرتے ہیں انہیں نیند آورادویات دی جاتی ہیں جو نیند کے آغاز اور اختتام کے دورانیہ جس میں نیند کچی ہوتی ہے اسے کم سے کم کرکے مریض کو پر سکون بنا دیتی ہیں۔

ڈاکٹر طیب عارفین کے مطابق اگر ایسی کوئی مشین یا سوفٹ وئیر بنا لیا جائے جس کے ذریعے خوابوں کو سکرین پر دیکھنا ممکن ہو تو اس سے ایسے مریضوں کے علاج میں آسانی کے ساتھ ساتھ بے شمار دیگر دماغی امراض کے علاج میں بھی مدد ملے گی جو اب تک ایک معمہ بنے ہوئے ہوئے ہیں۔