1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حلب میں لڑائی شدت پر، ہزاروں شامی ترکی کی سرحد پر

کشور مصطفیٰ6 فروری 2016

روس اور شامی فورسز نے ہفتے کے روز شام میں اپنی فوجی کارروائیوں میں غیر معمولی اضافہ کر دیا۔ شہر حلب کے گرد باغیوں کے قبضے والے علاقوں پر دوبارہ حکومتی قبضے کے قوی امکانات نظر آ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Hqui
تصویر: Reuters/O. Orsal

باغیوں کے زیر قبضہ حلب کے گرد و نواح کے علاقوں پر روسی اور شامی فورسز کا گھیرا تنگ کرنے اور گھمسان کی جنگ کے سبب ہزاروں شامی باشندے پناہ کی تلاش میں ترکی کے ساتھ شام کی متصل سرحد پر پہنچ گئے۔

امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ حلب کے گرد ہونے والے حملوں سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ باغیوں کو پسپا کر کے روسی اور شامی فورسز ان علاقوں کو بہت جلد اپنے قبضے میں لے لیں گی۔ مزید یہ کہ یہ تازہ ترین فوجی کارروائی جینوا شام امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔

ماہرین کے مطابق روسی مداخلت سے شام کی جنگ کا دھارا مُڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ گزشتہ سال باغیوں نے اسد کی حامی فورسز کے خلاف کارروائیاں کر کے شام کی جنگ کو جس طرح اپنے حق میں موڑ لیا تھا وہ صورتحال اب اسد کے حق میں پلٹا کھاتی دکھائی دے رہی ہے۔

Syrer flüchten Richtung türkische Grenze
ترکی کی سرحد کی طرف شامی پناہ گزینوں کا ریلاتصویر: picture alliance/AA/K. Kocalar

شامی صدر بشار الاسد کے وزیر خارجہ کہہ چُکے ہیں کہ اب جنگ کو روکنا ناممکنات میں سے ہے کیونکہ باغی آزادانہ طور پر ترکی اور اُردن کی سرحدیں پار کرنے کے قابل بن چکے ہیں۔

حلب کا مکمل کنٹرول حاصل کرنا اسد حکومت کی ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی، خاص طور سے شام کی پانچ سالہ جنگ کے تناظر میں جس کا شکار ہو کر کم از کم ڈھائی لاکھ انسان ہلاک ہو چُکے ہیں اور 11 ملین اپنے گھر بار سے محروم ہو چُکے ہیں۔

ایرانی جنگجوؤں سمیت اتحادی ملیشیا اور شامی فورسز کی پیش قدمی حلب میں باغیوں کے قبضے والے علاقوں کو مرکزی شہر سے کاٹ کر رکھ دینے کا سبب بن سکتی ہے جبکہ اس شہر میں اب بھی قریب ساڑھے تین لاکھ باشندے رہ رہے ہیں۔ دوسری جانب ایک ملین سے زائد شامی باشندے حکومتی کنٹرول والے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔

ترکی اب تک ڈھائی ملین شامی مہاجرین کو پناہ دے چُکا ہے۔ اس کے وزیر خارجہ نے اپنے تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ مزید 55 ہزار شامی مہاجرین پناہ کی تلاش میں ترکی کی سرحد کی طرف آ رہے ہیں تاہم ترک شہر کیلیس کے نزدیک شام اور ترکی کی سرحدوں کو ملانے والی گزرگاہ اونچوپینار، جو قریب ایک سال تک بند رہنے کے بعد دوبارہ کھول دی گئی ہے، کے شامی علاقے میں مہاجر کیمپس قائم کر دیے گئے ہیں جہاں شامی مہاجرین کو عارضی یناہ دی گئی ہے۔

Syrer flüchten Richtung türkische Grenze
پناہ کی تلاش میں سرگردہتصویر: picture alliance/AP Photo

اونچوپینار کے علاقے کے ایک مقامی گورنر تپسیز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ 48 گھنٹوں میں 35 ہزار شامی مہاجرین اس جگہ تک پہنچ چُکے ہیں۔ اُن کے بقول، ’’ہمارے دروازے بند نہیں ہیں تاہم سر دست اس امر کی ضرورت نہیں پائی جاتی کہ ان لوگوں کی مہمانداری ہم اپنی سرحدوں کے اندر لاکر کریں۔‘‘

اونچوپینار کے مقام پر خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے ایک رپورٹر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اُس نے کبھی کبھار شیلنگ کی آوازیں سُنی ہیں جبکہ اُسے متعدد ترک ایمبولنسیں بھی سرحد پار کرتی دکھائی دی ہیں۔

ترکی پر اس وقت دوہرا دباؤ ہے۔ ایک طرف انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں انقرہ حکومت سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ شامی مہاجرین کے لیے اپنے سرحدی راستے کھولے اور دوسری جانب ترکی کو کئی یورپی ممالک سفارتی دباؤ میں رکھے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے ہاں مزید تارکین وطن یا مہاجرین کو پناہ دینے کے سلسلے میں محتاط رہے۔