1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حماس کی جنگ بندی اور اسرائیلی مایوسی

11 اپریل 2011

اسرائیل کی غزہ کے انتظامی کنٹرول کی نگران انتہاپسند تنظیم حماس کے ساتھ بظاہر غیر تحریری جنگ بندی کا عمل شروع ہو گیا ہے لیکن اس کے مستقبل پر اسرائیلی سیاستدانوں اور فوج کو تشویش ہے کہ یہ کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/10rXn
اسرائیلی کارروائی سے تباہ شدہ ایک گھرتصویر: picture alliance/dpa

اسرائیل کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دونوں طرف اب امن کی فضا بحال ہونا شروع ہو گئی ہے لیکن کوئی ایک بھی راکٹ اس عمل کو ختم کردے گا۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اگر مزید راکٹ فائر کیے گئے تو اگلی بار اسرائیل کا رد عمل زیادہ سخت ہو گا۔ جمعرات سے اتوار تک جاری رہنے والی اسرائیلی فوج اور فضائیہ کی کارروائیوں کے دوران کم از کم اٹھارہ فلسطینیوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔ اسرائیلی فوجی ایکشن ایک اسکول بس کو راکٹ لگنے کے بعد شروع کیا گیا تھا۔

اسی تناظر میں اسرائیل کے وزیر خارجہ اویگڈور لیبرمین کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کو ایک کمزور جنگ بندی پر انحصار کرنے کے بجائے غزہ پر حاکم مذہبی حکومت کے خاتمے کی جانب توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ لیبرمین کا مزید کہنا ہے کہ تازہ جنگ بندی کے بعد غزہ کے انتہاپسند ایک بار پھر اپنی فوجی قوت کو اکٹھی کریں گے اور پھر کسی روز جنوبی اسرائیل پر راکٹ اور مارٹر گولے داغنا شروع کردیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو حماس حکومت کے خاتمے کی جانب توجہ دینی چاہیے۔ لیبر مین کے اس نظریے کو اسرائیل کے اندر کچھ اور سیاستدان بھی اسپورٹ کر رہے ہیں۔ زیادہ تر سیاستدان، جن میں وزیر دفاع ایہود باراک بھی شامل ہیں، جنگ بندی کے حامی ہیں۔ البتہ سیاسی اور فوجی مبصرین کا خیال ہے کہ حماس حکومت کے فوجی خاتمے کی کارروائی کے لیے اسرائیل کو امکانی طور پر بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔

Israelische Soldaten mit Munition
غزہ پٹی پر فائر کرنے سے قبل اسرائیلی فوجی اسلحے کا معائنہ کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance / dpa

دوسری جانب عرب لیگ کے سربراہ امر موسیٰ کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم جلد ہی اقوام متحدہ سے درخواست کرے گی کہ غزہ پٹی کو نو فلائی زون قرار دیا جائے۔ یہ تجویز عرب لیگ کی ایک ہنگامی میٹنگ میں منظور کی گئی۔ اب آئندہ پیش رفت اقوام متحدہ میں متعین عرب ملکوں کے سفیر کریں گے۔ بین الاقوامی مبصرین کے مطابق اگر عرب ممالک سکیورٹی کونسل تک اس تجویز کو لے بھی گئے تو اسرائیل کا قریبی حلیف ملک امریکہ اسے ویٹو کردے گا۔

فلسطینی صدرکے مقرر کردہ وزیر اعظم سلام فیاض اسی ہفتے یورپی یونین میں ایک رپورٹ پیش کرنے والے ہیں جس میں کہا جائے گا کہ فلسطینی عوام اپنی ایک خود مختارریاست کے قیام کے لیے تیار ہیں۔ اس 63 صفحاتی رپورٹ کو سلام فیاض نے تازہ ترین اعداد و شمار کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ اس کے علاوہ فلسطینی لیڈر اس سال ستمبر میں اقوام متحدہ سے بھی درخواست کریں گے کہ وہ خود مختار فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے۔ یورپی یونین کی ایک کمیٹی کے سامنے سلام فیاض اپنی یہ رپورٹ تیرہ اپریل بدھ کے روز پیش کریں گے۔

رپورٹ: عابد حسین⁄ خبر رساں ادارے

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں