1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حمیرا، ’’دا گیم چینجر‘‘

عنبرین فاطمہ، کراچی22 اپریل 2016

کراچی کے گنجان آباد کچےعلاقے مواچھ گوٹھ کی رہائشی حمیرا بچل نے بارہ سال کی عمر میں بچیوں کو اپنے گھر کے ایک کمرے سے تعلیم دینے کا، جو سلسلہ شروع کیا وہ آج ’’ڈریم ماڈل اسٹریٹ اسکول‘‘ کی شکل میں دنیا کے سامنے موجود ہے۔

https://p.dw.com/p/1IatI
Pakistan Humaira Bachal DW Local hero
تصویر: Wajih Shairani

حمیرا بچل کا تعلق ایک ایسے علاقے سے ہے، جہاں اب سے چند برس پہلے تک تعلیم خصوصاً لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کا خیال ناپید تھا۔ زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم اس علاقے سے تعلق رکھنے والی حمیرا اپنے خاندان کی پہلی لڑکی ہی نہیں بلکہ وہ پہلی فرد بھی ہیں، جس نے تعلیم حاصل کی۔

ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے حمیرا بتاتی ہیں کہ ان سے پہلے ان کے گھرانے میں لفظ تعلیم کا وجود ہی نہیں تھا، ’’اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے والد اور والدہ کا تعلق مختلف ثقافت سے ہے۔ میرے والد کا تعلق سندھ اور والدہ کا بلوچستان سے ہے۔ میری والدہ خود تو تعلیم یافتہ نہیں لیکن ان کے خاندان میں کچھ لوگوں نے تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ تو انہیں اس کی اہمیت کا احساس تھا اس لیے وہ ہمیں تعلیم دلانا چاہتی تھیں۔ ابتدا میں تو اتنا مسئلہ نہیں تھا لیکن جب بڑے ہونا شروع ہوئے تو خاندان کی طرف سے پابندیاں عائد ہونا شروع ہوئیں کہ اب لڑکیاں بڑی ہو گئیں ہیں ان کو گھر سے نہیں نکالنا۔ یہ پابندیاں میرے والد اور بھائیوں کی جانب سے لگائی جاتی تھیں لیکن میری والدہ اس بات پر ڈٹی رہیں کہ وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے ضرور آراستہ کریں گی کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ جو کچھ انہوں نے سہا ان کی بیٹیاں بھی وہی برداشت کریں۔‘‘

Pakistan Humaira Bachal Schulen Mädchen Bildung
2001ء میں، جس اسکول میں صرف ایک ٹیچر کام کر رہی تھی، وہاں اب کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے چالیس افراد کا اسٹاف موجود ہےتصویر: Humaira Bachal

حمیرا بتاتی ہیں کہ تعلیم کے حصول کے معاملے میں باہر کی بجائے گھر کے اندر ہی سے زیادہ اور تکلیف دہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ’’پرائمری تک تو سب ٹھیک چلتا رہا لیکن جب سیکنڈری کی بات آئی، خاص طور سے نویں اور دسویں جماعت کی، تو والد کی جانب سے بہت مخالفت تھی۔ اس صورتحال کے باعث والدہ نے کہا کہ تم فی الحال والد کو بتائے بغیر داخلہ لے لو کیونکہ ان کو پتہ چلا تو وہ اجازت نہیں دیں گے۔ اس طرح میں نے داخلہ لے لیا لیکن اس طرح کہ میری کتابیں اور یونیفارم ایک سہیلی کے گھر ہوتا جہاں سے میں تیار ہو کر والد کے علم میں لائے بغیر اسکول جاتی تھی۔ لیکن ایک دن والد کو علم ہو گیا۔ اس پر بہت مار بھی پڑی اور کافی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر اس کے باوجود میں سوچتی تھی کہ اخر عورت ہونا کوئی جرم ہے؟ جو اس کو اس قدر سختیوں اور ظلم کے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔ یہ سوال ذہن میں اٹھتے تھے۔‘‘

Pakistan Humaira Bachal Schule Mädchen Bildung
ستائیس کمروں پر مشتمل اسکول میں بارہ سو سے زائد بچوں کو تعلیم دی جارہی ہےتصویر: Humaira Bachal

ایک ایسی عمر، جس میں بچے بے فکری کی زندگی کھیل کود کر گزارتے ہیں، اس میں اپنا ایک اسکول شروع کرنے کا خیال کس طرح آیا؟ اس حوالے سے حمیرا بتاتی ہیں، ’’میرے گاؤں میں جہاں سے میرا تعلق ہے، ایک ایسا حادثہ ہوا، جس نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میری ایک کزن نے اپنے بچے کو بخار میں دی جانے والی دوا پلائی، جس کے کچھ دیر بعد ہی اس بچے کا انتقال ہو گیا۔ گاؤں میں چرچا ہوا کہ بچے کو اس کی ماں نے قتل کر دیا۔ بالاآخر معلوم ہوا کہ وہ عورت کیونکہ پڑھ نہیں سکتی تھی اس لیے وہ جان نہیں سکی کہ جو دوا وہ اپنے بچے کو دے رہی ہے، اس کی ڈیٹ ایکسپائر ہو چکی تھی، جس کی وجہ سے بچہ موت کے منہ میں چلا گیا۔ اس واقعے کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ ایسا کس طرح ہو سکتا ہے کوئی تاریخ بھی نہیں پڑھ سکتا۔ اس وقت بارہ سال کی عمر میں چھٹی کلاس کی طالبہ ہوتے ہوئے میں نے فیصلہ کیا کہ میں لوگوں کو تاریخیں پڑھنا سکھاؤں گی اور اس کو میں نے اپنا مشن بنا لیا۔ اسی کے تحت میں نے اپنے گھر میں محلے کے بچوں کو تھوڑا تھوڑا کر کے جمع کرنا شروع کر دیا۔ انہیں اپنی نوٹ بک میں سے صفحے پھاڑ کر دیتی تھی۔ جب اسکول میں اس بات پر ڈانٹ پڑتی تو سوچا کہ کوئی اور راستہ اختیار کیا جائے۔ بس پھر گورنمنٹ اسکول میں چھوٹی چھوٹی مہمات چلائیں، ہر دس دن میں ایک بُک ڈے رکھتے، لوگوں سے کتابیں مانگنے نکلتے۔ ہم نے سوچا جو کرنا ہے، ہم نے خود کرنا ہے۔ بس اپنی کوششوں سے ہم نے 2011 میں دس بچوں کے ساتھ اس سکول کا آغاز کیا اور تب سے یہ سلسلہ چل نکلا۔‘‘

Pakistan Humaira Bachal Schulen Mädchen Bildung
تصویر: Humaira Bachal

ایک ایسے علاقے میں، جہاں تعلیم کا تصور نہیں تھا اور بچیوں کا گھر سے نکلنا معیوب سمجھا جاتا تھا، وہاں بچیوں کو تعلیم دینے میں، جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا اس حوالے سے حمیرا بتاتی ہیں، ’’ابتدا میں تو مسئلہ نہیں ہوا۔ اس وقت میں خود بھی چھوٹی تھی یعنی گیارہ بارہ سال کی تو لوگوں کی نظر میں یہ ایک کھیل تھا۔ میرے گھر والے اور کمیونٹی کے لوگوں کو یہ ہی لگا کہ بچی ہے، کھیل رہی ہے، تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن جیسے جیسے یہ ایک پراجیکٹ کی شکل بنتا گیا تو لوگوں کو پریشانی ہونے لگی کہ یہ کھیل مذاق تو سنجیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے یہ مذاق گھر کے کمرے سے شروع ہوا، پھر صحن میں آگیا، پھر گلی میں اور پھر یہ مذاق کرائے کی جگہ تلاش کر رہا تھا تا کہ اس کو اسکول کی شکل دی جائے تو اس وقت لوگوں کے سامنے ایک مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ لیکن اس وقت تک دس کے بجائے ہم ایک سو بیس بچوں کے ساتھ کھڑے تھے تو ہمارے حساب سے ہمارا مشن اور سنجیدہ ہو گیا تھا۔ بس پھر مشکلات کا سلسلہ شروع ہوا۔ مجھے اغوا کرنے کا پلان بنایا گیا، ہمیں گاؤں سے نکالا گیا، گاؤں والوں نے عرصے تک میرے والدین سے ناطہ توڑے رکھا، خاندان کے لوگوں نے ناطہ توڑ دیا، جس کمیونٹی میں ہم رہ رہے تھے، وہاں یہ باتیں ہونے لگیں کہ ان کو یہاں نہیں رہنے دینا کیونکہ ان کی بیٹیوں کی وجہ سے ہمارے بیٹیاں بدظن جائیں گی، خراب ہو جائیں گی۔ لوگ آتے جاتے ہمیں گالیاں دیتے، اسکول پر پتھراؤ کرتے۔ پھر ہم نے شرکت گاہ نامی این جی او کا سہارا لیا تو لوگوں کو احساس ہوا کہ ہم اتنے اکیلے نہیں، جتنا وہ ہم کو سمجھ رہے تھے۔ ان سب حالات میں ڈر بھی لگتا تھا، پریشانی بھی ہوتی تھی۔ پھر یہ کہ باہر والوں کی مخالفت تو برداشت ہو جاتی ہے لیکن گھر میں موجود مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا، جیسے گھر میں بھائی اکثر کہا کرتے تھے کہ حمیرا تم ہمارے لیے باعث شرمندگی ہو۔ تمھاری وجہ سے ہم محلے میں نکل نہیں سکتے، گلی میں بیٹھ نہیں سکتے لیکن میں اپنی والدہ کی سپورٹ کی بدولت اس کام کو کرتی رہی۔‘‘

London Chime For Change Madonna Humaira Bachal and Sharmeen Obaid-Chinoy
عالمی شہرت یافتہ گلوکارہ میڈونا بھی حمیرا کے کام کے معترف ہیں اور چند برسوں سے ان کے اسکول کے لیے فنڈز بھی فراہم کررہی ہیںتصویر: Getty Images/T. Whitby

حمیرا اپنے ’’ڈریم ماڈل اسٹریٹ اسکول‘‘ کے حوالے سے بتاتی ہیں، ’’ابتدا میں، جہاں یہ اسکول ہم نے بنایا، وہاں ایسا کوئی پڑھا لکھا تھا ہی نہیں، جو اس اسکول میں پڑھاتا۔ میں نے خود پڑھانا شروع کیا اور ان بچوں کا آہستہ آہستہ خود تربیت دی، ان کے والدین کو سمجھایا۔ میرا یہ ماننا تھا کہ جو بھی پڑھائے اس کا تعلق اسی کمیونٹی سے ہو کیونکہ اگر باہر سے کسی ٹیچر کو لایا جائے گا تو لوگ اسے غلط ہی سمجھیں گے لیکن اگر اپنی بچیاں تعلیم دیں گی تو لوگوں کو اس کی اہمیت کا اندازہ ہو گا۔ تو جب میرے اسکول سے پہلا بیچ 2007 میں میٹرک کر کے نکلا تو وہ دس لڑکیاں تھیں، انہوں نے ہی اس اسکول کو جوائن کیا اور وہ اساتذہ کے فرائض بھی انجام دینے لگیں اور دیگر فرائض بھی سنبھالنے لگیں۔ جب لوگوں کو احساس ہوا کہ ان کی بیٹیاں یہ کام کر رہی ہیں، جس سے کمیونٹی کے دوسرے بچوں کو پڑھنا آ رہا ہے تو لوگوں کی جانب سے مخالفت میں کمی آنے لگی۔ اور آج صورتحال یہ ہے کہ 2001ء میں، جس اسکول میں صرف ایک ٹیچر کام کر رہی تھی، وہاں اب کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے چالیس افراد کا اسٹاف موجود ہے، جہاں ستائیس کمروں پر مشتمل اسکول میں بارہ سو سے زائد بچوں کو تعلیم دی جارہی ہے۔‘‘

حمیرا کی ان تھک کاوشوں اور حالات سے لڑتے ہوئے اپنے مشن کو جاری رکھنے کا اعتراف صرف ان کی کمیونٹی میں ہی نہیں کیا جا رہا بلکہ عالمی سطح پر بھی کیا جا رہا ہے۔ اس بات کا ثبوت انٹرنیشنل ٹیچر پرائز 2016ء میں حمیرا کا ایوارڈ کے لیے نامزد ہونا ہے، جس میں دنیا کے 148 ممالک کی جانب سے آٹھ ہزار سے زائد افراد امیدوار تھے۔ حمیرا کا انتخاب ایوارڈ کے لیے نامزد چالیس حتمی امیدواروں میں کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایتکارہ شرمین عبید چنائے کی ڈاکومنٹری ’’حمیرا، دا ڈریم کیچر‘‘ نے بھی عالمی سطح پر دنیا کی توجہ حمیرا کی جانب مبذول کروائی۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ دنیائے موسیقی کی عالمی شہرت یافتہ گلوکارہ میڈونا بھی حمیرا کے کام کے معترف ہیں اور چند برسوں سے ان کے اسکول کے لیے فنڈز بھی فراہم کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ سلمیٰ ہائیک پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے جدوجہد کرنے والی اس سماجی کارکن کی زندگی پر’’حمیرا، دا گیم چینجر‘‘ کے عنوان سے ایک دستاویزی فلم بھی بنا چکی ہیں۔