1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حنا کی موت 'کوڑوں کی بجائے تشدد سے ہوئی'

10 فروری 2011

گزشتہ ہفتے بنگلہ دیش میں ہلاک ہونے والی لڑکی حنا کو مبینہ ناجائز تعلق کے الزام میں کوڑے مارے گئے تھے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اس کی ہلاکت کی وجہ کوڑوں کی مار نہیں بلکہ جسمانی تشدد ہے۔

https://p.dw.com/p/10F0J
تصویر: picture-alliance/Photoshot

یہ بات حنا بیگم کے دوبارہ کیے گئے پوسٹ مارٹم کے بعد سامنے آئی ہے جس کی رپورٹ کا اعلان آج بدھ کے روز سرکاری وکیل استغاثہ کی جانب سے کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ہلاکت اندرونی طور پر خون بہنے کے باعث ہوئی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل الطاف حُسین نے بتایا کہ حنا کی دوسری پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق یہ قتل کا کیس بنتا ہے۔ حنا کی موت اندرونی چوٹوں سے خون بہنے کے باعث واقع ہوئی ہے جبکہ اُس کے جسم پر زخموں کے آٹھ بڑے واضح نشان بھی موجود ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اعلٰی عدالت نے علاقے کے پولیس چیف اور ڈاکٹر کو طلب کیا ہے تاکہ اس سے قبل کیے گئے پوسٹ مارٹم رپورٹ کی وضاحت طلب کی جا سکے۔

حنا کو اس کے گاؤں کے بڑوں اور مقامی مذہبی رہنماؤں کی جانب سے اپنے شادی شدہ کزن سے ناجائز تعلق قائم کرنے کے الزام میں شریعت کے مطابق سر عام کوڑے مارنے کی سزا سنائی گئی تھی۔ جس کے بعد 15 سالہ حنا بیگم گزشتہ ہفتے بنگلہ دیش کے ایک ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئےانتقال کر گئی تھی۔

Überschwemmung in Bangladesch
بنگلہ دیش میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کو بھی ’ناجائز جنسی رابطوں کی مرتکب‘ قرار دے کر کوڑے مارے جا چکے ہیں۔تصویر: AP

اس سے قبل کیے گئے پوسٹ مارٹم میں کہا گیا تھا کہ حنا کے جسم پر ’بیرونی زخموں کا کوئی نشان موجود نہیں ہے۔‘ اس رپورٹ کے بعد عوام کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا کہ پولیس اس غیر قانونی شرعی سزا دینے کے مرتکب افراد کے خلاف کاروائی کرے جبکہ حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اس معاملے کو اعٰلی عدالت تک لے گئیں۔

ادھر بنگلہ دیش کے جنوبی ضلع شریعت پور کے ضلعی افسرِ اعلیٰ شاہد الرحمان نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ حنا کے فرار ہونے والے کزن محب خان کو، جسے حنا کے ساتھ جنسی تعلقات کے الزام میں کوڑے مارے جانے کی سزا سنائی گئی تھی، پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔

محب خان کے علاوہ اس واقعے میں ملوث مقامی مذہبی رہنما سمیت چار افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ ایک درجن سے زائد مشتبہ افراد کی تلاش جاری ہے۔

بنگلہ دیش ہی میں کئی ایسے باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ واقعات بھی سامنے آچکے ہیں جن میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کو بھی ’ناجائز جنسی رابطوں کی مرتکب‘ قرار دے کر کوڑے مارے جا چکے ہیں۔

ایک ہی طرح کے ایسے متعدد مقدمات میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے گزشتہ برس جولائی میں ڈھاکہ ہائی کورٹ نے فتویٰ کے نام پر سنائی جانے والی ہر قسم کی مذہبی سزاؤں کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا تاہم اس عدالتی فیصلے کا عملی طور پر ابھی تک کوئی زیادہ اثر نہیں ہوا۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ

ادارت: افسر اعوان