1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حوصلہ مند  شامی خاتون حائلہ کلاوی تبدیلی کی علامت

صائمہ حیدر
23 نومبر 2016

عرب ممالک کے قدامت پسند معاشروں میں  متعدد عرب خواتین تبدیلی کی علامت بن کر  اپنا کردار نبھا رہی ہیں۔ یہ شام کی مہاجر خاتون حائلہ کلاوی کے حوصلے کی داستان ہے جو اپنے خاندان کی واحد کفیل ہیں۔

https://p.dw.com/p/2T7qV
Haela Kalawi
کلاوی اب عورت سے متعلق فرسودہ اور روایتی تصورات کو ترک کر چکی ہےتصویر: picture alliance/AP Photo/B.Hussein

اپنی ملازمت کے پہلے چند ہفتوں کے دوران حائلہ کلاوی اکثر روتے ہوئے گھر واپس جاتی۔ اُس کا کام کوڑے کو ری سائیکل کرنا تھا۔ بات صرف یہ نہیں تھی اکتیس سالہ کلاوی کو ایک کم ہوا دار بیسمنٹ کے گَرد آلود ماحول میں کوڑے سے بھری ٹوکریوں میں ہاتھ ڈال کر کوڑا چننا پڑتا تھا بلکہ اصل معاملہ یہ تھا کہ  شام کی رہائشی کلاوی اِس سوچ کے ساتھ پلی بڑھی تھی کہ خواتین کے لیے گھرسے باہر نکل کر کام کرنا شرمناک بات ہے۔

 اُن دنوں کلاوی کو اپنی پسند کے کپڑے خود خریدنے یا اپنی مرضی کا ٹی وی پروگرام دیکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ آج لبنان کے دارالحکومت بیروت  کی ایک پسماندہ بستی میں رہنے والی حائلہ کلاوی اپنے چار بچوں کی کفالت کر رہی ہے۔ اُسے یہ کرنا ہی ہے کیونکہ اُس کا شوہر تین برس قبل شام میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران لاپتہ ہو گیا تھا۔

کلاوی اپنی پرانی آرام دہ زندگی کو اب بھی یاد کرتی ہے۔ لیکن اب سے پہلے کلاوی کو علم نہیں تھا کہ اُس میں مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی کتنی صلاحیت موجود ہے۔ کلاوی اب عورت سے متعلق فرسودہ اور روایتی تصورات کو ترک کر چکی ہے۔

کرائے کے مکان کے ایک چھوٹے سے کمرے میں بچھے سرمئی رنگ کے گدّے پر بیٹھی کلاوی نے خبر رساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا ، ’’ میں نے اپنے بچوں کو بتایا ہے کہ اب میں ہی خاندان کا مرد ہوں۔ اب ماں بھی میں ہوں اور باپ بھی۔ میں ہی انہیں باہر لے کر جاؤں گی اور اُنہیں وہ سب مہیا کروں گی جس کی انہیں ضرورت ہو گی۔‘‘

 دنیا بھر میں  تنازعات والے ممالک میں خواتین اکثر جنگ کی سختیاں برداشت کرتی ہیں۔ شام میں بھی یہی صورتِ حال ہے۔ لبنان میں قریب دو لاکھ چالیس ہزار شامی مہاجرین ہیں جن میں سے ایک تہائی تعداد خواتین کی ہے۔  اِن خواتین کے شوہر جو روایتی طور پر کنبے کی کفالت کے ذمّہ دار تھے، یا تو جنگ میں  لاپتہ ہیں یا ہلاک ہو چکے ہیں۔ یا پھر کسی وجہ سے اپنی ذمّہ داری اٹھانے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔

 کلاوی اُن مہاجر خواتین میں سے ایک ہےجو اِس تمام منظر نامے میں تبدیلی کی علامت بن کر ابھری ہیں۔ کلاوی نے یہ قدم ایک ایسے علاقے میں اٹھایا ہے جہاں خاتون کے لیے خاندان کا سربراہ ہونا بہت اچنبھے کی بات ہے۔  حائلہ کلاوی نے خانہ جنگی کے دوران لاپتہ ہو جانے والے اپنے شوہر کو یاد کرتے ہوئے کہا، ’’ میں اُس کی یاد میں روز آنسو بہاتی ہوں۔ وہ میری جائے پناہ تھا۔ جب سے وہ لاپتہ ہوا ہے میرے لیے تو جیسے دنیا اندھیر ہو گئی ہے۔ ‘‘

خانہ جنگی سے قبل کلاوی عورت کی ملازمت کے سخت خلاف تھیں۔ اِس حوالے سے خود میں تبدیلی کی وجہ اُنہوں  نے یوں بیان کی، ’’ مجھے بچوں کی کفالت کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی اور اپنی والدہ سے پیسے مانگنا بہت بُرا لگتا تھا۔ ‘‘

کلاوی کو امید ہے کہ ایک دن وہ اپنے ملک واپس جا سکے گی لیکن اِس کے ساتھ ہی وہ آزاد زندگی بسر کرنا چاہتی ہے اور دوبارہ شادی کرنے کے خلاف ہے۔ کلاوی کا کہنا تھا، ’’ میں پندرہ برس کی تھی جب میری شادی کر دی گئی۔ تب میری کوئی رائے تھی نہ کوئی شخصیت۔ مجھے بس قبول کرنا تھا۔ لیکن اب میری اپنی ایک شخصیت ہے اور مجھے خود پر بے حد اعتماد ہے۔ میں اب عضوِ معطل نہیں ہوں۔ ‘‘

 

بیروت کا ری سائیکلنگ پلانٹ