1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خلائی ملبہ، اسپیس پروگراموں کے لیے شدید خطرہ

صائمہ حیدر
15 اپریل 2017

خلا میں موجود ملبہ خلائی جہازوں کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے اور یہ مسئلہ دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ یورپی خلائی ایجنسی نے اس مسئلے پر بات چیت کرنے کے لیے ايک بین الاقوامی کانفرنس بلا لی ہے۔

https://p.dw.com/p/2bHC5
Space Debris / Welraumschrott
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اِس وقت زمین کے مدار میں لاکھوں  فالتو ٹکڑے ہیںتصویر: NASA

خلا میں  بے شمار کاٹھ کباڑ  موجود ہے جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اِن بیکار اڑتے پھرتے ٹکڑوں اور اشیاء کو مختلف ملکوں کے خلائی مشنز کے راستے کی رکاوٹ خیال کیا جاتا ہے۔ خلا میں پایا جانے والا يہ ملبہ ایک ایسا بڑھتا ہوا مسئلہ ہے جسے سائنسدان تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔

بے آباد مصنوعی سیارے، تباہ ہو جانے والے خلائی راکٹوں کی باقیات اور ایسے ہی بے کار ہو جانے والے لاکھوں چھوٹے چھوٹے اجسام نہ صرف خلائی جہازوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں بلکہ اِن کو تباہ بھی کر سکتے ہیں۔ یورپی خلائی ایجنسی یا ’ای ایس اے‘ کے اسپیس ڈبری آفس کے سربراہ ہولگر کریگ کا کہنا ہے،’’ مستقبل میں خلا میں اجسام کے بیچ ایسے ٹکراؤ میں مزید اضافہ ہو گا۔‘‘

خلائی ملبے سے اب تک 250 دھماکے اور رکاوٹیں پیدا ہو چکی ہيں۔ ارد گرد ایسے 18000 بڑے ٹکڑے موجود ہیں جن کا سسٹم کے ذریعے پتہ لگایا جانا باقی ہے۔ تاہم خلا میں موجود چھوٹے حجم کے اجسام بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ تخمینوں سے پتہ چلتا ہے کہ خلائی ملبہ قریب 750،000 ایسے چھوٹے اجسام کی صورت میں بھی موجود ہے جن کا قطر ایک اور دس سینٹی میٹر کے درمیان ہے۔

ممکنہ طور پر 40،000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کرنے والے یہ مختصر اجسام  خلا میں اگر کسی اور جسم سے ٹکرا جائیں، تو ایک دستی بم پھٹنے جتنی فورس پیدا کر سکتے ہیں۔

خلائی ملبے کے مسئلے پر بلائی جانی والی ساتویں یورپی کانفرنس جرمنی کے شہر ڈارم اشڈٹ میں قائم ’ای سی اے مشن کنٹرول‘ کی عمارت میں 18 سے اکیس اپریل تک جاری رہے گی جہاں شرکاء اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کريں گے۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اِس وقت زمین کے مدار میں لاکھوں  فالتو ٹکڑے ہیں، جن کا تعلق پرانے اور تباہ ہو جانے والے خلائی جہازوں اور بالائی خلائی علاقے سے گرنے والے ٹکڑوں سے ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ زمینی مدار میں اڑتے پھرتے یہ ٹکڑے مستقبل کے خلائی پروگراموں کے لیے شدید خطرے کا باعث ہو سکتے ہیں۔