1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواتین ایک ساتھ تین طلاقوں کی مخالف

افسر اعوان22 اگست 2015

بھارت میں کرائے جانے والے ایک سروے کے مطابق 90 فیصد سے زائد مسلم خواتین ملک میں رائج فیملی سول لاء میں ایک ساتھ تین طلاقیں دیے جانے اور مردوں کے لیے ایک سے زائد شادیوں کی اجازت کے خلاف ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GJqj
تصویر: Reuters

تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے مطابق یہ سروے بھارت میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم بھارتیہ مسلم مہیلا اندولن (BMMA) کی طرف سے کرایا گیا۔ BMMA کے مطابق اس کی طرف سے کرائے گئے سروے میں شریک تین چوتھائی خواتین، بھارت کے مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی اور کم عمری کی شادی پر پابندی لگانے کی حامی ہیں۔ واضح رہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے خاندانی تنازعات مسلم پرسنل لاء کے تحت طے کیے جاتے ہیں۔

بی بی ایم اے کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق، ’’سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان خواتین اپنے قانونی حقوق سے آگاہ ہیں اور خاندانی معاملات میں انصاف کے حصول کے لیے پُر عزم ہیں۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد نے بھارت میں اس وقت نافذ مسلم پرسنل لاء میں اصلاحات کا بھی تقاضا کیا۔‘‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’بھارتی خواتین شادی، طلاق دینے کے طریقہٴ کار، ایک سے زائد شادیوں، طلاق کی صورت میں بچوں کی کفالت اور ماں یا باپ میں کس کے ساتھ رہنے کی اجازت دی جائے، اس طرح کے معاملات میں قرآنی نظام انصاف پر مبنی قوانین میں ترمیم چاہتی ہیں۔‘‘

مسلمان بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ 1.2 ارب کی آبادی والے اس ملک میں مسلمان شہریوں کی تعداد 13 فیصد سے زائد بنتی ہے تاہم بھارتی حکومتی اعداد و شمار کے مطابق مسلمان سب سے زیادہ الگ تھلگ اور پسماندہ کمیونٹی ہیں۔

مثال کے طور پر بھارتی خواتین میں اوسط خواندگی کی شرح 53 فیصد ہے جبکہ مسلمان خواتین میں یہ شرح 50 فیصد ہے۔ 100 میں سے محض ایک مسلمان خاتون گریجوایٹ ہے جبکہ بھارت میں مجموعی طور پر 37 فیصد خواتین نے کالج یا یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔

بھارت میں 100 میں سے محض ایک مسلمان خاتون گریجوایٹ ہے جبکہ بھارت میں مجموعی طور پر 37 فیصد خواتین نے کالج یا یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کر رکھی ہے
بھارت میں 100 میں سے محض ایک مسلمان خاتون گریجوایٹ ہے جبکہ بھارت میں مجموعی طور پر 37 فیصد خواتین نے کالج یا یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کر رکھی ہےتصویر: AP

بی ایم ایم اے کے مطابق جہاں ایک طرف بھارت میں مسلمان خواتین کو صحت، تعلیم اور ملازمتوں جیسی سہولتوں کے حوالے سے صورتحال کی فوری بہتری کی ضرورت ہے تو دوسری طرف قانونی حوالے سے بھی ان کی صورتحال پر توجہ کی ضرورت ہے۔

اس اسٹڈی کے دوران بھارت کی 10 ریاستوں میں 4,710 مسلمان شادی شدہ خواتین سے رائے لی گئی۔ اس سروے میں 92 فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ مسلمان مردوں کو ایک بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

سروے میں شریک 88 فیصد خواتین نے قانونی طلاق کے طریقہٴ کار کے لیے ’طلاق احسن‘ کی حمایت کی جس میں طلاق کی تکمیل کے لیے 90 دن کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور جس دوران معاملات کو بات چیت کے ذریعے طے کرنے کا موقع موجود ہوتا ہے۔