1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’خواتین پر تشدد کے خلاف بِل یا عورت کے زخموں پر نمک پاشی‘

فرزانہ علی، پشاور
15 ستمبر 2017

کے پی کے اسمبلی میں خواتین پر تشدد کے خلاف ایک بل پیش کیے جانے کے مراحل میں ہے جس میں شوہر اور والدین کی طرف سے کیے جانے والے اصلاحی اقدامات کے خلاف قدم نہ اُٹھانے کی تاکید کی گئی ہے۔ خاتون صحافی فرزانہ علی کا تبصرہ۔

https://p.dw.com/p/2k2zd
Narben Gewalt Frau Pakistan
تصویر: DW

پشاور کے علاقے سردار احمد جان کالونی کی حلیمہ بی بی جب مجھے اپنے جسم پر لگی گولیوں کے نشانات دکھا رہی تھی  تب میرے ذہن میں خیبر پختونخو ا اسمبلی میں آنے والے گھریلو تشدد کے اُس بل کی کاپی کے نکات گھوم رہے تھے جس کے آرٹیکل نمبر 22  میں تشدد کے معاملے پر شوہر اور والدین کی طرف سے کیے جانے والے اصلاحی اقدامات کے خلاف قدم نہ اُٹھانے کی تاکید کی گئی تھی۔

اگرچہ یہ بل ابھی قانون بننے کے مراحل میں ہے تاہم کئی سالوں کی مسلسل محنت کے بعد جس شکل میں یہ قانونی مسودہ ہمارے سامنے آیا وہ نہ صرف حلیمہ بی بی بلکہ ما لاکنڈ کی نادیہ بی بی، نوشہرہ کی عظمیٰ بیگم اور الماس بی بی کے ساتھ ہونے والے ظلم کی داد رسی کے بجائے ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔

 پچیس سالہ حلیمہ بی بی ایک بیٹی اور دو بیٹوں کے ساتھ چار سال سے باپ کے دروازے پر بیٹھی ہے۔  مارپیٹ کی حد تک تو حلیمہ شوہر کا ظلم اور ناانصافی برداشت کرتی رہی لیکن جب معاملہ فائرنگ کے ذریعے قتل کرنے کی کوشش تک پہنچا تو بات برداشت سے باہر ہوگئی۔ پہلی بار پانچ گولیوں اور دوسری بار تین گولیوں نے حلیمہ بی بی کو جسمانی طور پر معذور کر دیا۔ اب حلیمہ بی بی کو نہ صرف میں چلنے میں تکلیف ہوتی ہے بلکہ اُس کے بازو بھی کام کرنے کے قابل نہیں رہے۔

 معاشرتی سطح پر تشدد کی اس انتہا کے بعد اگر آنے والے قانون کو اسی شکل میں لایا گیا کہ جہاں والدین اور شوہر کو اصلاحی اقدام کے نام پر مکمل اختیار دے دیا جائے، تو پھر حالات بہتری کی بجائے مزید بگاڑ کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سول سوسائٹی  نے نہ صرف اس مسودے کو مسترد کر دیا ہے بلکہ اکثر کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بل کو اسمبلی میں پیش کرنے سے نہ کرنا ہی بہتر ہے۔

اس بل سے متعلق جب خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی خاتون سماجی کارکن رخشندہ ناز سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ گھریلو تشدد اور خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں اب معاشرتی سطح پر ایک خطرناک رجحان اختیار کر گئی ہیں جس کے روک تھام کی فوری ضرورت ہے ۔

ناز کے رائے میں پدرانہ  معاشرے میں شادی شدہ زندگی میں عورت کا سامنا صرف مرد سے نہیں بلکہ اسکی اَنا سے بھی ہوتا ہے جسکی وجہ سے عورت کی اپنی شخصیت بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آرٹیکل نمبر 22 کا مقصد  اس رجحان کو نہ صرف تقویت دینا ہے بلکہ شوہر کی ہر آواز اور بات پر جی حضوری کی مہر لگانا بھی ہے۔

جس معاشرے میں سالن میں نمک کے کم ہونے یا روٹی کے گول نہ ہونے پر عورتوں کے جسم کے اعضاءکاٹ دیے جائیں وہاں بڑے دھیان سے قانون سازی کرنا پڑتی ہے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں پیش کیے جانے والے حالیہ بِل میں تشدد کی نہ تو وضاحت کی گئی ہے نہ ہی اس کی اقسام پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

دوسری جانب اگر ہم ذرا ماضی میں جا کر 1997 کی ناصر اسلم زاہد انکوائری کمیشن رپورٹ دیکھیں تو اس میں’ میریٹل ریپ‘ کی بھی بات کی گئی ہے لیکن حالیہ بل میں سب کچھ ادھورا ہے۔

Farzana Ali Aaj News
بیورو چیف آج ٹی وی پشاور، فرزانہ علیتصویر: DW Akademie

لیکن وہ خواتین  ارکان اسمبلی جو کہ  حقوقِ نسواں کے لئے کام کرتی رہی ہیں اور گھریلو تشدد کے خلاف قانون کے لئے آواز اُٹھانے میں پیش پیش رہیں ہیں، اب وہ کیوں خاموش ہیں۔؟ اسی سوال کا جواب لینے کے لیے میں نے خبیر پختونخوا پارلیمانی کاکس کی چیئر پرسن معراج ہمایوں سے بات کی تو پتہ چلا کہ اُن کو سول سوسائٹی کا یوں واویلا مچانا انتہائی ناگوار گزرا ہے۔

انھوں نے اس کی وجہ یہ بتائی،’’ بڑی مشکل اور کئی لوگوں کی جدو جہد کے بعد بالآخر یہ بل ا سمبلی میں پیش ہو رہا ہے اور اسے پیش ہونا چاہیے،چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہو۔ پھر یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اسے کیسے پاس کریں ۔‘‘
ان جملوں کی روشنی میں اس قدامت پرست معاشرے میں انفرادی سطح پر کسی کے ہاتھ میں یہ طاقت یا اختیار دینا کہ جو اصلاح کے زمرے میں آتا ہو،’’کہ تم کر سکتے ہو‘‘ کا نتیجہ کیا نکلے گا اس کا اندازہ ‍ لگانا زیادہ مشکل بات نہیں۔
یہی نقطہ جب میں نے بِل بنانے والی جماعت اسلامی کی خاتون ممبر اسمبلی راشدہ رفعت کے سامنے اُٹھایا تو وہ اس قانونی مسودے سے نہ صرف کافی مطمئین نظر آئیں بلکہ انکا کہنا تھا کہ اس بل میں مذہب اور معاشرے دونوں کے تناظر میں بات کی گئی ہے۔
راشدہ رفعت سے بات کرنے کے بعد جب میں نے اپنا فون بند کیا تو سامنے لگی ٹی وی اسکرین پر چلتے ڈرامے میں خاتون کو یہ کہتے سنا ،’’ ہمارے معاشرے میں جب عورت کسی کے نام ہو جاتی ہے تو پھر وہ اُسکی ملکیت بن جاتی ہے‘‘
سامنے میز پر رکھا گھریلو تشدد کی روک تھام کے لئے پیش کیے گئے بل کا مسودہ، قانون بنانے والوں کا سہل پسند رویہ، گھریلو تشدد کا شکار خواتین اور معاشرتی سوچ کی عکاسی کرتے ڈرامے کے ڈائیلاگ۔۔ ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں مسودہ اگر اسی حالت میں قانون بن گیا تو پھرعورت مکمل ملکیت ہی بن کر رہ جائے گی ۔۔ والدین کے گھر باپ اور بھائیوں کی اور سسرال میں شوہر کی۔