1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’خود کُش بمبار 60 تا 80 لاکھ روپے میں‘

4 جولائی 2011

افغانستان کی انٹیلیجنس ایجنسی نے اتوار کو کہا کہ پاکستانی طالبان کے ایک سینئر کمانڈر نے ایک خود کُش بمبار ایک افغان عسکریت پسند نیٹ ورک کے ہاتھ فروخت کیا ہے تاکہ مشرقی افغانستان میں ایک مقامی کمانڈر پر حملہ کیا جا سکے۔

https://p.dw.com/p/11oQ6
زندہ پکڑا جانے والا ایک خود کش بمبار
زندہ پکڑا جانے والا ایک خود کش بمبارتصویر: AP

گزشتہ کچھ عرصے کے دوران دونوں ہمسایہ ملکوں افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں کسی قدر سرد مہری آ چکی ہے۔ افغانستان کا الزام ہے کہ پاکستانی سرزمین سے فائر کیے گئے سینکڑوں گولے افغان سرزمین پر گرے ہیں جبکہ پاکستان اس الزام کو رَد کرتے ہوئے یہ کہہ ر ہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ چند ایک گولے اتفاق سے افغان سرزمین پر جا کر گرے ہوں گے، اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوا۔

اسی پس منظر میں اب افغانستان کے خفیہ ادارے NDS یعنی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی نے کہا ہے کہ اُس کے ایجنٹوں نے پاکستانی شہریت کے حامل اس بمبار کو مشرقی صوبے پکتیا کے جاجی میدان ضلع میں حملہ کرنے سے پہلے ہی حراست میں لے لیا تھا۔

این ڈی ایس کی جانب سے اس بمبار کا نام شیر حسن بتایا گیا ہے، جسے مبینہ طور پر افغانستان میں برسرِ پیکار باغیوں کے خطرناک ترین گروپ حقانی نیٹ ورک کی جانب سے بھیجا گیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ یہ حملہ آور باقاعدہ حقانی نیٹ ورک میں شامل نہیں تھا بلکہ اُس کے اپنے بیان کے مطابق اُسے ’عزیز اللہ‘ نامی ایک کمانڈر کو ہلاک کرنے کے لیے خریدا گیا تھا۔ ’عزیز اللہ‘ کون ہے اور اُس کا تعلق کس گروپ سے ہے، یہ تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

حقانی نیٹ ورک کے علیل قائد جلال الدین حقانی، آج کل اس نیٹ ورک کی قیادت غالباً اُن کے بیٹے سراج الدین حقانی کے پاس ہے
حقانی نیٹ ورک کے علیل قائد جلال الدین حقانی، آج کل اس نیٹ ورک کی قیادت غالباً اُن کے بیٹے سراج الدین حقانی کے پاس ہےتصویر: picture-alliance/dpa

مزید بتایا گیا ہے کہ شیر حسن نے اپنے خریدے جانے کے بعد ایک پورا مہینہ حقانی نیٹ ورک کے ساتھ تربیت حاصل کرنے میں گزارا۔ افغان ادارے NDS کے مطابق ’زیر حراست شخص نے مزید بتایا کہ حکیم اللہ محسود کے زیر کمان ایک کمانڈر خود کُش حملہ آور فروخت کرتا ہے اور ایک حملہ آور کی قیمت 60 تا 80 لاکھ پاکستانی روپے (70 تا 93 ہزار ڈالر) وصول کی جاتی ہے‘۔

افغان انٹیلیجنس ادارے کے بیان میں نہ تو یہ بتایا گیا ہے کہ شیر حسن نامی اس مبینہ خود کُش بمبار کے لیے کتنی رقم ادا کی گئی اور نہ ہی یہ کہ اُسے کس طرح سے حراست میں لیا گیا۔

افغانستان میں طالبان نے مئی کے مہینے میں اپنے موسم بہار کے حملے شروع کرنے کا اعلان کیا تھا اور تب سے افغانستان بھر میں پُر تشدد واقعات میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ابھی چند روز پہلے کابل میں ہوٹل انٹرکانٹینینٹل پر خود کُش حملہ آوروں کے ایک گروپ کی جانب سے کیے جانے والے ایک حملے میں کم از کم دَس افراد مارے گئے تھے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں