1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر پختونخواہ میں بم دھماکوں سے متاثرہ افراد تاحال امداد اور انصاف کے منتظر

29 دسمبر 2011

گزشتہ چند سالوں کی طرح 2011ء بھی خیبر پختونخوا کے عوام کے لیے بم دھماکوں، خودکش حملوں اور سکیورٹی فورسز پر حملوں اور اسکولوں کو دھماکوں سے اڑانے کا سال رہا۔ اس دوران دہشت گردی کے 188 واقعات میں 551 افراد ہلاک ہوئے۔

https://p.dw.com/p/13bUw
تصویر: picture alliance/dpa

ان واقعات میں زخمیوں کی تعداد 1160 سے زیادہ رہی۔ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق 2003ء سے اب تک دہشت گردی کی کارروائیوں میں نو ہزار سے زیادہ شہری ہلاک جبکہ ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوچکے ہیں۔ سال 2011 ء کے دوران پولیس پر کیے جانے والے 161حملوں میں 63 اہلکار وں سمیت 123شہری بھی ہلاک ہوئے جبکہ پولیس نے100 دہشت گرد بھی گرفتا ر کیے۔ ایک سال قبل 2010 ء میں پولیس پر 138حملوں میں 23 پولیس اہلکار وں سمیت 66 شہری ہلاک ہوئے تھے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران اس سال بھی زیادہ حملے سکیورٹی فورسز پر کئے گئے جو زیادہ تر پشاور، نوشہرہ، چارسدہ اور جنوبی اضلاع میں ہوئے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے ان واقعات کے دوران تین صحافی بھی لقمہ اجل بنے۔ دہشت گردی کی ان وارداتوں میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں اور عام شہریوں کے لواحقین کو کسی حد تک صوبائی حکومت نے معاوضہ دیا ہے تاہم قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کا شکار ہونے والے افراد کے ورثاءکی اکثریت اس امداد سے تاحال محروم ہے۔

Anschlag in Peschawar Pakistan
رواں سال صوبہ خیبر پختونخوا میں بم دھماکوں، خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں میں پانچ سو اکاون افراد ہلاک ہوئےتصویر: AP

دوسری جانب دہشت گردی سے متاثرہ افراد کے لواحقین اور ورثاء کا کہنا ہے کہ ابھی تک حکومت دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہزاروں افراد کو عدالتوں میں پیش نہ کرسکی ۔

اس سلسلے میں ڈوئچے ویلے نے صوبائی وزیر قانون بیرسٹر ارشد عبداللہ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ’’اس سلسلے میں قانون سازی کررہے ہیں تاکہ اس مخصوص حالات پر قابو پایا جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض قوانین تیار کرکے وفاق کو ارسال کیے ہیں اور جونہی وفاقی حکومت کی جانب سے اس کی منظوری آئے گی تو اس کے مطابق معاملات کو آگے بڑھائیں گے۔‘‘

صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران ہزاروں کی تعداد میں مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا ہے جو مختلف سکیورٹی اداروں کی حراست میں ہیں، لیکن مناسب گواہ اور قانونی تقاضے پورے نہ ہونے کی وجہ سے انہیں عدالتوں میں نہیں لایا جاسکا۔ جو لائے گئے ان میں سے بھی زیادہ تر ضمانت پر رہائی حاصل کرچکے ہیں۔

سینئر صحافی اور تجزیہ نگا ر جہانزیب صدیق نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’دہشت گردی سے متاثرہ افراد کے ورثاء کا یہی مطالبہ ہے کہ ان دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرکے انہیں سزا دی جائے، تاہم حکومت ابھی تک ان افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے قانون سازی میں کامیاب نہ ہوسکی۔‘‘

Verhaftete Taliban Kämpfer in Pakistan Grenze Afghanistan
پاکستان میں دہشت گردوں کو گرفتار تو کیا جاتا ہے لیکن مناسب گواہ اور قانونی تقاضے پورے نہ ہونے کے سبب ان میں سے بیشتر ضمانت پر رہائی حاصل کر لیتے ہیںتصویر: AP

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سے متاثرہ افراد کے ورثاء کو حکومت نے امداد فراہم کی ہے لیکن جہاں ایک بڑی تعداد اس امداد سے محروم ہے وہاں وہ انصاف کی فراہمی کیلئے حکومتی اقدامات کی منتظر ہے۔

دہشت گردی نے جہاں صوبہ خیبر پختونخوا میں ہزاروں افراد کی جان لی ہے وہا ں معیشت کو بھی بے پناہ نقصان پہنچایا ہے تاہم موجودہ حکومت ساڑھے تین سال گزرنے کے باوجود دہشت گردی کی روک تھام اور اس میں ملوث افراد کو سزاء دلانے میں مؤثر قانون سازی میں کامیاب نہ ہوسکی۔

رپورٹ: فرید اللہ خان، پشاور

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں