1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش کا سرکردہ رہنما ابو وہیب ہلاک

امتیاز احمد10 مئی 2016

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے تصدیق کر دی ہے کہ عراقی صوبے انبار میں شدت پسند تنظیم داعش کا ایک سرکردہ رہنما ابو وہیب ہلاک ہو گیا ہے۔ جہادی حلقوں میں ابو وہیب ’صحرائی شیر‘ کے نام سے مشہور تھا۔

https://p.dw.com/p/1Ikyz
Videostill Twitter - IS Abu Wahib
تصویر: picture-alliance/AP Photo

پینٹاگون کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ابو وہیب اور تین دیگر جنگجو چھ مئی کو کی جانے والی ایک فضائی کارروائی میں ہلاک ہوئے۔ امریکا نے داعش کے اس رہنما کی ہلاکت کو اس عسکری اور جہادی تنظیم کے لیے ایک دھچکا قرار دیا ہے۔ ایک امریکی عہدیدار کے مطابق یہ فضائی کارروائی امریکی جہازوں نے کی تھی جب کہ ہلاکت کے وقت یہ جہادی رہنما صوبہ انبار کے الرطبہ نامی شہر کے مضافات میں موجود تھا۔ بتایا گیا ہے کہ وہیب ماضی میں القاعدہ کا رکن بھی رہ چکا ہے۔

پینٹاگون کے ایک ترجمان پیٹر کُک کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ابو وہیب کو صوبہ انبار کی ملٹری پلاننگ میں ایک اہم کردار حاصل تھا اور ہلاکت کے بعد وہاں داعش کی آپریشنز کی صلاحیت میں فرق پڑے گا۔ اس ترجمان کا کہنا تھا، ’’اتحادی فورسز داعش کو سخت طریقے سے نشانہ بنا رہی ہیں اور یہ اس کی ایک مثال ہے۔‘‘

پیٹر کُک کا مزید کہنا تھا، ’’ان دنوں عراق اور شام میں داعش کا رہنما بننا خطرناک ہے اور اس کی کچھ وجوہات بھی ہیں ( یعنی جو بھی بنے گا، اسے ہلاک کر دیا جائے گا)۔‘‘

پینٹاگون کی طرف سے ابو وہیب سے متعلق کچھ زیادہ معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں، جو تصویر جاری کی گئی ہے، وہ سن دو ہزار چار کی ہے۔ اس تصویر میں ابو وہیب کو ایک بچے کو پھول تحفہ دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ تصویر خود داعش نے سوشل میڈیا مہم کے دوران جاری کی تھی۔

نیوز ایجنسی روئٹرز اور اے پی کے مطابق وہیب سن انیس سو چھیاسی میں صوبہ انبار ہی میں پیدا ہوا تھا اور داعش کی طرف سے سر قلم کرتے ہوئے ریلیز کی جانے والی متعدد ویڈیوز میں اسے دیکھا جا سکتا ہے۔

امریکا اور اس کے اتحادی سن دو ہزار چودہ سے عراق اور شام میں فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان حملوں کا مقصد داعش کو کمزور کرنا بتایا گیا ہے۔ عراقی میڈیا ماضی میں بھی وہیب کی ہلاکت کی رپورٹیں شائع کرتا رہا ہے لیکن ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ امریکا نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔

ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ وہیب کو ڈرون یا پھر کسی جنگی طیارے کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تھا۔