1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش کی جنگی تربیت سے یزیدی لڑکوں کا فرار

افسر اعوان26 اپریل 2016

جب نو سالہ یزیدی لڑکے مُراد کو داعش کے قبضے سے نکل بھاگنے کا موقع ملا تو وہ اس کا فائدہ اٹھانے کی بجائے ہچکچاہٹ کا شکار تھا۔ یہ گروپ مراد کی والدہ کے ساتھ جنسی زیادتی کے علاوہ سینکڑوں یزیدیوں کے قتل کا مرتکب ہو چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Id0f
Irak Islamischer Staat Fahne ISIS
تصویر: Imago/Xinhua

داعش کے قبضے میں 20 ماہ گزارنے والے مُراد کا ذہن اس حد تک تبدیل کیا جا چکا تھا کہ اُس نے اپنی والدہ کو بتایا کہ وہ اُس کیمپ میں ہی رہنا چاہتا ہے جہاں اسے جنگی تربیت دی جا رہی تھی تاکہ وہ اپنی برادری سے تعلق رکھنے والوں سمیت داعش کے مخالفین کو قتل کر سکے اور ان کے خلاف جنگ میں حصہ لے سکے۔

اس وقت مرُاد اپنی والدہ اور چھوٹے بھائی کے ساتھ عراق میں کرُدوں کے کنٹرول والے علاقے میں محفوظ ہے۔ مراد کی والدہ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اُسے اپنے بیٹے کو فرار ہونے پر راضی کرنے کے لیے بہت کوشش کرنا پڑی۔ یہی حال بقیہ یزیدی لڑکوں کا بھی تھا جو رواں ماہ کے آغاز میں اُس تربیتی مرکز سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔

مُراد کی والدہ نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا، ’’میرے بیٹے اور دیگر لڑکوں کا دماغ اس حد تک تبدیل کر دیا گیا تھا کہ وہ اپنے خاندان سے کہتے تھے کہ آپ لوگ چلے جائیں، ہم وہیں رہیں گے۔۔۔ یہاں تک کہ وہاں سے نکلنے سے چند لمحوں قبل تک میرا بیٹا کہہ رہا تھا کہ میں آپ کے ساتھ نہیں جاؤں گا۔‘‘

داعش نے ہزاروں یزیدی خواتین یا لڑکیوں کی عصمت دری کی گئی یا پھر انہیں جنسی غلام بنا لیا گیا تھا
داعش نے ہزاروں یزیدی خواتین یا لڑکیوں کی عصمت دری کی گئی یا پھر انہیں جنسی غلام بنا لیا گیا تھاتصویر: Imago/ZUMA Press

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یزیدی لڑکوں کو اس طرح جنگی تربیت دینا دراصل دہشت گرد گروپ داعش کی طرف سے جنگجوؤں کی ایک ایسی نئی نسل تیار کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے جو اس گروپ کے انتہائی تشدد پسندانہ خیالات اور نظریے کے وفادار ہوں۔ داعش کے قبضے میں رہنے والے نو عمر لڑکوں کو جو تربیت فراہم کی جا رہی تھی اس سے وہ خود بھی خوفزدہ رہتے تھے اور یہاں تک کہ داعش کے چنگل سے بچ نکلنے کے باوجود بھی وہ خوفزدہ نظر آتے ہیں۔

عراق اور شام کے کئی علاقوں پر قبضہ کرنے والے شدت پسند گروپ دولت اسلامیہ یا داعش نے مراد، اس کی والدہ اور چھوٹے بھائی کو عراقی شہر سِنجار کے قریب ایک گاؤں سے اگست 2014ء میں ایک حملے کے بعد اپنے قبضے میں لیا تھا۔ اس حملے میں ہزاروں یزیدی خواتین یا لڑکیوں کی عصمت دری کی گئی یا پھر انہیں جنسی غلام بنا لیا گیا تھا۔