1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش کے بم، سامان دنیا کے 20 ممالک کی فیکٹریوں سے آتا ہے

افسر اعوان25 فروری 2016

ایک تازہ اسٹڈی میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے 20 ممالک کی کمپنیوں کے آلات دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ کے بموں اور دیگر دھماکا خیز ہتھیاروں میں استعمال ہوتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1I2ND
تصویر: picture-alliance/dpa

اس اسٹڈی میں حکومتوں اور کمپنیوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنے آلات، خصوصی طور پر تاروں اور کیمیائی اجزاء کے بارے میں با خبر رہیں کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔ یورپی یونین کے تعاون سے کی جانے والی اس اسٹڈی کے مطابق ترکی، برازیل اور امریکا سمیت 20 ممالک کی ایسی 51 کمپنیاں ہیں جن کے تیار کردہ، فروخت کردہ یا وصول شدہ آلات یا اشیاء دولت اسلامیہ کی طرف سے اپنے طور پر بنائے گئے بموں میں استعمال ہوئے۔ انہیں IED یا ’امپرووائزڈ ایکسپلوسیو ڈیوائس‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

کنفلکٹ آرمامینٹ ریسرچ (CAR) نے اس اسٹڈی پر 20 ماہ کا وقت لگایا۔ اس اسٹڈی کے مطابق داعش کی طرف سے IEDs اب ’قریب قریب صنعتی پیمانے‘ پر تیار کی جا رہی ہیں جس کے لیے نہ صرف ایسے صنعتی کمپونینٹ یا آلات بھی استعمال ہوئے جن کی فراہمی کا حساب کتاب رکھا جاتا ہے اور عام دستیاب اجزا اور کمپونینٹ بھی جیسے کھادیں، کیمیکلز اور موبائل فون وغیرہ۔

داعش یا دولت اسلامیہ عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر قابض ہے۔ نیٹو کے رکن ملک ترکی کی سرحدیں ان دونوں ممالک سے ملتی ہیں اور ترکی کی جانب سے سرحدی سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے تاکہ اس دہشت گرد گروپ کے لیے ہتھیاروں اور عسکریت پسندوں کی ترسیل کو روکا جا سکے۔

اسٹڈی کے مطابق ترکی کی 13 ایسی کمپنیاں ہیں، جن کا سازوسامان داعش تک پہنچ رہا ہے۔ کسی ایک ملک میں ایسی کمپنیوں کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔ اس کے بعد بھارت کا نمبر ہے جہاں کی سات کمپنیوں کی اشیاء داعش تک پہنچ رہی ہیں۔

داعش یا دولت اسلامیہ عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر قابض ہے
داعش یا دولت اسلامیہ عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر قابض ہےتصویر: Stringer/AFP/Getty Images

CAR کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جیمز بیون کے مطابق، ’’یہ نتائج بین الاقوامی طور پر بڑھتی اس آگاہی کی تائید کرتے ہیں کہ شام اور عراق میں داعش کے جنگجو ہتھیاروں اور دیگر چیزوں کے حصول میں خود مختار ہیں جن میں مقامی طور پر آسانی کے ساتھ IEDs کے لیے درکار آلات بھی شامل ہیں۔‘‘

ہتھیاروں کے مقابلے میں نسبتاﹰ کم قیمت اور با آسانی دستیاب آلات میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کے لیے حکومتی ایکسپورٹ لائسنسوں کی بھی ضرورت نہیں ہوتی اور جن کی فروخت کے بارے میں زیادہ حساب کتاب بھی نہیں رکھا جاتا۔

اس اسٹڈی کے مطابق جب ان کمپنیوں کی طرف سے قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد وہ اشیاء کسی خاص علاقے کی کمپنیوں کو فروخت کیے جاتے ہیں تو اس کے ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں یہ اجزاء اسلامک اسٹیٹ تک پہنچ جاتے ہیں۔

بیون کے مطابق، ’’کمپنیاں اگر اس بات کا پتہ رکھنے کے لیے مؤثر اکاؤنٹنگ نظام بنا لیں کہ فروخت کے بعد ان کی مصنوعات کہاں گئیں تو یہ چیز ایک سلسلے کو روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘