1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش کے پراپیگنڈے کے جواب کی کوششوں کا فائدہ

افسر اعوان15 مئی 2016

امریکی حکام اور انٹرنیٹ کمپنیاں داعش کے پراپیگنڈا کے مقابلے کے لیے اپنی کوششوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ان کی یہ کوششیں اس شدت پسند گروپ کے عوامی رابطوں کو کس حد تک متاثر کر رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1IoGI
تصویر: Imago/Xinhua

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جہاد میں شمولیت کی دعوت، اس گروپ کے جنگجوؤں کی میدان جنگ میں لڑتے ہوئے یا پھر یرغمالیوں کو قتل کرتے ہوئے بنائی گئی ویڈیوز، داعش انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر طویل عرصے سے استعمال کر رہی ہے جس کا مقصد شام اور عراق میں قائم کردہ اس کی خود ساختہ خلافت کا حصہ بننے کے لیے لوگوں کو متوجہ کرنا اور انہیں بھرتی کرنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں انفرادی طور پر لوگوں کو یہ ترغیب دینا بھی ہوتا ہے کہ وہ دہشت گردانہ حملے کریں۔

ان کوششوں کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ کی دنیا کی بڑی کمپنیاں مثلاﹰ ٹوئیٹر اور فیس بُک اس بات پر سخت محنت کر رہی ہیں کہ جہادی اکاؤنٹس کو بند کر دیا جائے مگر اس طرح کے اکاؤنٹ بار بار مختلف ناموں سے نئے بنا لیے جاتے ہیں۔

امریکی ’پبلک ڈپلومیسی اینڈ پبلک سیفٹی‘ انڈر سیکرٹری آف اسٹیٹ رچرڈ اسٹینگل نے داعش کے حوالے سے منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بتایا، ’’ٹوئیٹر یہ بات عوامی سطح پر کہہ چکا ہے کہ اس نے دو لاکھ اکاؤنٹس بند کیے ہیں۔ مگر اصل میں وہ اس سے کہیں زیادہ تعداد میں ایسے اکاؤنٹس ختم کر چکے ہیں۔‘‘

اسٹینگل کا مزید کہنا تھا، ’’یو ٹیوب کئی ملین ویڈیوز کو اُڑا چکی ہے۔ فیس بُک کے پاس سینکڑوں افراد ہیں جو تمام وقت اس طرح کے خطرناک مواد کو ختم کرتے رہتے ہیں۔‘‘ اسٹینگل ٹائمز میگزین کے سابق ایڈیٹر بھی ہیں۔

اس گروپ کے جنگجوؤں کی میدان جنگ میں لڑتے ہوئے یا پھر یرغمالیوں کو قتل کرتے ہوئے بنائی گئی ویڈیوز، داعش انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر طویل عرصے سے استعمال کر رہی ہے
اس گروپ کے جنگجوؤں کی میدان جنگ میں لڑتے ہوئے یا پھر یرغمالیوں کو قتل کرتے ہوئے بنائی گئی ویڈیوز، داعش انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر طویل عرصے سے استعمال کر رہی ہےتصویر: Getty Images/A.Almohibany

اس کے علاوہ امریکی محکمہ خارجہ کا گلوبل انگیجمنٹ سنٹر بھی اسی طرح کی کوششوں میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ داخلہ سلامتی کے حوالے سے امریکی صدر باراک اوباما کی اعلیٰ ترین مشیر لیزا موناکو کے مطابق یہ سنٹر ’’امریکا کے ایسے پیغام پر توجہ مرکوز نہیں کرنے جا رہا جس پر امریکی حکومت کی مہر ثبت ہو، بلکہ یہ علاقے کے اندر موجود اور پوری سول سوسائٹی کی ایسی آوازوں کو فروغ دے رہا ہے جو متوازن اور قابل بھروسہ ہیں۔‘‘

اے ایف پی کے مطابق امریکی فوج کی مرکزی کمانڈ بھی جو مشرق وسطیٰ میں ہونے والے آپریشنز کو دیکھتی ہے، داعش کے پراپیگنڈا کا مقابلے کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر ’فعال طور پر مصروف‘ ہے۔ تاہم امریکا میں قائم ایک پرائیویٹ انٹیلیجنس کمپنی ’سرچ فار انٹرنیشنل ٹیررسٹ اینٹیٹیز انٹیلیجنس گروپ‘ (SITE) نے ایسے خیالات کو رد کر دیا ہے کہ داعش کے پراپیگنڈا میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق اب یہ گروپ ٹوئیٹر اور فیس بُک جیسے بڑے پلیٹ فارمز کی بجائے چھوٹے پلیٹ فارم مثلاﹰ ٹیلیگرام وغیرہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنا رہا ہے۔

اسی دوران امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ داعش میں شمولیت کے لیے شام یا عراق کا رُخ کرنے والے افراد کی تعداد میں کمی واقع ہو چکی ہے تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ گروپ اب بھی ایسے لوگوں اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو ان کے بقول ’پریشان روحیں‘ یا ذہنی یا جذباتی طور پر متوازن حالت میں نہیں ہیں۔