1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داووس کے عالمی اقتصادی فورم میں توجہ کا مرکز چینی صدر

مقبول ملک
17 جنوری 2017

امریکا میں صدر اوباما کے پس رو کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے محض تین روز قبل سوئٹزرلینڈ میں منگل سے شروع ہونے والے امسالہ عالمی اقتصادی فورم میں چینی صدر شی جن پنگ بظاہر ہر کسی کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2VtvG
China Peking Präsident  Xi Jinping
چینی صدر شی جن پنگ پہلی مرتبہ عالمی اقتصادی فورم میں شرکت کر رہے ہیںتصویر: picture-alliance/Photoshot/Li Tao

سوئٹزرلینڈ کے سیاحتی تعطیلاتی مقام داووس میں آج منگل سترہ جنوری سے جو عالمی اقتصادی فورم شروع ہو رہا ہے، اس میں چینی صدر شی جن پنگ100 سے زائد اعلیٰ حکومتی اور کاروباری شخصیات پر مشتمل ایک وفد کے ساتھ شرکت کر رہے ہیں۔

ہر سال داووس میں منعقد ہونے والے دنیا کی سرکردہ ترین سیاسی، اقتصادی اور کاروباری شخصیات کے ورلڈ اکنامک فورم کہلانے والے اجتماع کا آغاز قریب نصف صدی قبل ہوا تھا اور تب یہ فورم زیادہ تر یورپی اور امریکی شخصیات کا اجتماع ہوا کرتا تھا۔

اب لیکن اس فورم میں چینی صدر جیسی سیاسی شخصیات کی پہلی مرتبہ شرکت اور اس شرکت کا انداز یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ عالمی اجتماع اپنی نوعیت میں ایک بہت بڑی تبدیلی کے عمل سے گزر چکا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اس تین روزہ فورم کے آغاز پر دنیا بھر سے آنے والے سیاسی اور کاروباری رہنماؤں سے چینی صدر شی جن پنگ جو خطاب کریں گے، وہ امسالہ فورم کا پہلا باقاعدہ خطاب ہو گا۔

اس خطاب کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ نہ صرف شاید ورلڈ اکنامک فورم 2017ء کی اہم ترین تقریر ہو گا بلکہ چینی صدر اس فورم میں شرکت کے لیے اگر سوئٹزرلینڈ آئے ہیں تو اس بار ان کا دورہء یورپ خاص اسی مقصد کے لیے ہے، جس کے بعد وہ کسی دوسرے یورپی ملک جانے کے بجائے واپس چین چلے جائیں گے۔

Weltwirtschaftsforum in Davos
تصویر: World Economic Forum/Benedikt von Loebell

صدر شی جن پنگ نے اس دورے کے لیے داووس اور وہاں ہونے والے عالمی اقتصادی فورم کو اتنی اہمیت کس لیے دی، اس سوال کا جواب یہ ہے کہ داووس میں سینکڑوں عالمی شخصیات جمع ہیں اور اس فورم کا میزبان ملک سوئٹزرلینڈ سیاسی اور اقتصادی حوالے سے انتہائی مستحکم اور روایتی طور پر ایک غیر جانبدار ریاست ہے۔

اس تناظر میں چینی صدر شی جن پنگ نے داووس پہنچنے کے بعد کل پیر سولہ جنوری کے روز سوئٹزرلینڈ کی خاتون صدر ڈورس لوئتھارڈ کے ساتھ ملاقات کے بعد اپنی اس ہم منصب کے ساتھ مل کر کچھ دیر کے لیے صحافیوں سے بات چیت بھی کی۔

اس موقع پر صدر شی جن پنگ نے کہا، ’’دونوں ملک (چین اور سوئٹزرلینڈ) عالمی امن اورا ستحکام کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے تاکہ مشترکہ طور پر ترقی کرتے ہوئے اس عالمی تجارتی نظام کو بھی ترویج دی جا سکے، جو کھلے پن اور باہمی برداشت کا مظہر ہو۔‘‘

چینی سربراہ مملکت نے کہا، ’’ہم عالمی سطح پر طرز حکمرانی کو زیادہ منصفانہ بنانے اور مزید منطقی سمت میں لے جانے کے لیے بھی اپنی کاوشیں جاری رکھیں گے۔‘‘

Schweiz Davos Weltwirtschaftsforum 2016
تصویر: Reuters/R. Sprich

نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے داووس سے منگل سترہ جنوری کی صبح اپنے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ کئی اہم مغربی جمہوری رہنما اس وقت داخلی طور پر اپنے اپنے ملکوں میں سیاسی عوامیت پسندی کے رجحانات کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہیں تو امریکا جیسے ملک سے بھی، جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، تین دن بعد جمعہ بیس جنوری کے روز صدارتی منصب پر فائز ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں آئندہ ملکی انتظامیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے صرف ایک اعلیٰ مشیر انتھونی سکارامُوچی ہی اس فورم میں شرکت کر رہے ہیں۔

شی جن پنگ وہ پہلے چینی صدر ہیں، جو داووس کے اس عالمی فورم میں شرکت کر رہے ہیں۔ ان کے ہمراہ آنے والے بہت بڑے ملکی وفد میں چار وزیر بھی شامل ہیں۔ شی جن پنگ کی عالمی تجارت کے بارے میں سوچ اور ورلڈ اکنامک فورم میں اس شرکت کے حوالے سے چینی میڈیا کا یہ کہنا بھی کافی بامعنی ہے کہ شی جن پنگ اپنے اقدامات کے ساتھ ’عالمی سطح پر استحکام کو فروغ دینے والی قوت‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید