1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’دمشقی گلاب سے اب بارود کی بو آنے لگی ہے‘

عدنان اسحاق 17 مئی 2016

دمشقی گلاب کا ذکر معروف برطانوی ادیب ولیم شیکسپیئر کی تصانیف میں بھی ملتا ہے۔ تاہم اب شامی خانہ جنگی اور خشک سالی کی وجہ سے اس منفرد گلاب کی کاشت کم ہوتی جا رہی ہے اور کسان شدید پریشانی کا شکار ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Ip3n
Deutschland Damaszener-Rose
دمشقی گلاب کا ذکر معروف برطانوی ادیب ولیم شیکسپیئر کی تصانیف میں بھی ملتا ہےتصویر: picture alliance/WILDLIFE/D. Harms

دمشقی گلاب کا شمار قدیم ترین پھولوں میں ہوتا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ گلاب کی یہ قسم شامی دارالحکومت دمشق اور اس کے نواحی علاقوں میں خاص طور پر کاشت کی جاتی ہے۔

اس گلاب کا عرق مختلف عطریات یا پرفیومز میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ متعدد ترک مٹھائیوں کا ذائقہ بھی اسی گلاب کے عرق کا مرہون منت ہوتا ہے۔ شام میں گزشتہ پانچ سالوں سے جاری خانہ جنگی اس پھول کی کاشت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔

دمشق سے شمال مشرق میں کوئی ساٹھ کلومیٹر دور جمال عباس کے کھیت ہیں۔ یہ علاقہ خانہ جنگی میں گھرا ہوا ہے۔ جمال عباس کے بقول، ’’دمشقی گلاب ختم ہونے کو ہے کیونکہ جس اراضی پر تیس پتیوں والا یہ پھول کاشت کیا جا رہا تھا، اب وہ نصف رہ گئی ہے۔‘‘

مقامی حکام نے بتایا کہ جنگ کی وجہ سے کھیتوں تک رسائی ممکن نہیں رہی یا بہت ہی مشکل ہو گئی ہے جبکہ کاشت کاروں کی ایک بڑی تعداد بھی نقل مکانی کر چکی ہے۔

دمشقی گلاب کا ایک سالانہ میلہ بھی منعقد کرایا جاتا رہا ہے اور یہ میلہ المراح نامی علاقے کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ بھی تھا۔ تاہم اس سال اس میلے کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔

ایک اور کسان حمزہ بطار کے مطابق، ’’2010ء میں ہم نے اّسی ٹن دمشقی گلاب کاشت کیے تھے جبکہ اس سال صرف بیس ٹن۔ پیداوار میں یہ کمی جنگ اور خشک سالی کی وجہ سے ہے۔‘‘

Iran Rosa damascena UGC-Bilder EINSCHRÄNKUNG
دمشقی گلاب کا شمار قدیم ترین پھولوں میں ہوتا ہےتصویر: Fatemeh Mohsenzadeh

2011ء میں جنگ شروع ہونے سے قبل لبنانی تاجر ان پھولوں کے سب سے بڑے خریدار تھے۔ یہ لوگ گلاب کی پتّیاں یورپ اور دنیا کے دیگر مملک کو برآمد کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ فرانس کے عطر ساز دمشقی گلاب کی خشک پتیوں سے پرفیومز میں استعمال ہونے والا ضروری تیل بنایا کرتے تھے۔

تاریخ دان بتاتے ہیں کہ صلیبی جنگوں کے دور میں بھی یہ پھول یورپ کو برآمد کیا جاتا تھا۔ یہ تاریخی گلاب فرانس، مراکش، ایران اور ترکی میں بھی کاشت کیا جاتا ہے۔

ابو بلال دمشقی گلاب کا تیل نکالتے اور فروخت کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب اس پھول سے بارود کی بو آتی ہے۔ ابو بلال اب اپنا کاروبار بند کر کے دمشق میں ایک عطر فروش کے پاس کام کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ تین ٹن خشک پتیوں سے ایک کلو یا دو پاؤنڈ تیل نکلتا ہے اور آج کل پوری منڈی میں ڈھائی سو گرام یا نصف پاؤنڈ تیل مشکل سے دستیاب ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید