1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا بھر سے بھوک اور غربت کے خاتمے کی جدوجہد کریں گے: جرمن وزیر خارجہ

Mustafa, Kishwar26 ستمبر 2008

وفاقی جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے آغاز پر ایک بیان میں دنیا بھر سے بھوک اور غربت کے خاتمے کی نئ جہد پر زور دیا۔

https://p.dw.com/p/FPAx
جرمن وزیرِ خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائرتصویر: AP

نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ترسٹھویں اجلاس کی افتتاحی تقریب سے فوراٍ پہلے جرمن وزیر خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ آٹھ سال قبل طے کئے جانے والے میلینیم اہداف پورے کرنے کے لئے ممکنہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔

دنیا بھر سے بھوک کے خاتمے کے لئے سرگرم جرمن تنظیم ورلڈ ہونگر ہلفے کی سربراہ Ingeborg Schäuble کے مطابق اگر بین الاقوامی برادری دنیاء بھر میں پائے جانے والے بھوک کے خاتمے کے مسئلے کو اتنا ہی سنحیدگی سے لیتی جتنا کہ عالمی اقتصادی بحران کو لیا جا رہا ہے تو بھوک کے بحران کے مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل پیدا ہو چکا ہوتا۔

اقوام متحدہ کے ملینیم اہداف کے مطابق سن دو وزار پندرہ تک دنیا سے بھوک کے شکار افراد کی تعداد میں نصف کمی ہوکر چار سو ملین ہو گئی ہوتی۔ جرمن وزیر خارجہ اشٹائن مائر نے نیو یارک میں اپنے بیان میں کہا کہ ایک سو بیانوے ریاستوں کے اجلاس میں رواں ہفتے کے دوران دنیاء بھر سے بھوک کے خاتمے کے لئے طے شدہ میلینیم اہداف پر مکمل توجہ دی جائے گی۔

جرمن وزیر داخلہ کی اہلیہ اور بھوک کے خاتمے کے لئے سرگرم جرمن تنظیم ورلڈ ہونگر ہلفے کی سربراہ Ingeborg Schäuble نے بون میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دنیا بھر میں کئی ملین انسانوں کو بھوک کا سامنا ہے۔ ایسے انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جنہیں چوبیس گھنٹے میں بمشکل ایک وقت کا کھانا نصیب ہوتا ہے۔ اور اس صورتحال سے سب سے زیادہ بچے، معمر افراد اور کمزور انسان شکار ہو رہے ہیں۔ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں ہونے والے ہوش رباء اضافے نے صورتحال کو سنگین تر بنا دیا ہے۔ Ingeborg Schäuble کا کہنا ہے کہ ان حالات میں غذائی اشیاء کی امداد تپتے ہوئے پتھر پر محض ایک قطرہ ٹپکانے کے مترادف ہے۔ بھوک اور افلاس کی بنیادی وجوہات کا تعلق دیہی علاقوں کی صورتحال سے ہے جنہیں عشروں سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

Ingeborg Schäuble نے مطالبہ کیا ہے کہ مختلف ممالک کے گاؤں، دیہاتوں میں سڑکیں، پل، کونئیں اور پانی کے پلانٹ تعمیر کرائے جائیں، نیز کسانوں کی تنظیموں کے مطالبات پورے کیے جائیں اور انہیں زمین، فرٹیلائزراور بنیادی غذاء آسان قرضوں پر فراہم کی جائیں۔ اسکے لئے دنیاء کی ترقیاتی امداد کا بیس سے تیس فیصد حصہ درکار ہوگا۔