1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دوسری شادی کرنے پر کیتھولک ہسپتال کا سربراہ ڈاکٹر برطرف

امتیاز احمد29 جولائی 2016

کیا دوسری شادی کرنے پر کیتھولک ہسپتال کو اپنے ڈاکٹر کو برطرف کرنا چاہیے تھا؟ جرمنی کی سب سے اعلیٰ لیبر عدالت نے یہ مقدمہ اب یورپی عدالت برائے انصاف میں بھیج دیا ہے کیوں کہ جرمنی میں چرچ کو مخصوص آئینی تحفظ حاصل ہے۔

https://p.dw.com/p/1JYSd
Irland Referendum Homo-Ehe Katholische Kirche
تصویر: picture alliance/empics/N. Carson

اب یہ فیصلہ لکسمبرگ میں قائم یورپی عدالت برائے انصاف کو کرنا ہوگا کہ آیا دوسری شادی کرنے پر کیتھولک ہسپتال کی طرف سے اپنے ڈاکٹر کو ملازمت سے نکالنے کا فیصلہ قانونی طور پر درست تھا۔ جرمن شہر ڈسلڈورف کے سینٹ ونسینس ہسپتال نے سن دو ہزار نو میں اپنے ایک ڈاکٹر کو سن دو ہزار آٹھ میں طلاق کے بعد دوبارہ شادی کرنے کے ’جرم‘ میں نوکری سے نکال دیا تھا۔

جرمنی کی وفاقی لیبر عدالت نے برطرفی کے اس فیصلے کو غیرقانونی قرار دیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ کیس یورپ کی سب سے بڑی عدالت میں بھیج دیا ہے۔ اس سے قبل بھی جرمنی کی دو علاقائی عدالتیں برطرف کیے گئے ڈاکٹر کے حق میں فیصلہ سنا چکی ہیں۔ ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ تمام جرمن شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ نوکری سے نکالے گئے ڈاکٹر کا دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر وہ کیتھولک نہ ہوتا تو اسے نوکری سے بھی نہ نکالا جاتا۔

دوسری جانب اس فیصلے کے خلاف دائر کی گئی اپیل میں جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت نے یہ کہا ہے کہ جرمنی میں چرچ کو مخصوص آئینی تحفظ حاصل ہے، جس کے تحت وہ مذہبی قوانین توڑنے پر ملازمین کو نوکریوں سے نکالنے کا حق بھی رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ ڈاکٹر کی دوسری شادی ہسپتال کے ساتھ کیے گئے معاہدے میں شامل ’’وفاداری کی شق‘‘ سے بھی مطابقت نہیں رکھتی۔ اس قانونی شق کے مطابق کیتھولک چرچ کے ملازمین کو اپنی نجی زندگیوں میں بھی کیتھولک نظریے کی پاسداری کرنا ہوتی ہے۔

Bundesarbeitsgericht
یہ مسئلہ اس وجہ سے بھی یورپی عدالت برائے انصاف میں بھیجا جا رہا ہے کیوں کہ جرمنی کی آئینی عدالت اور لیبر عدالت کسی ایک موقف پر متفق نہیں ہو سکی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

یہ مسئلہ اس وجہ سے بھی یورپی عدالت برائے انصاف میں بھیجا جا رہا ہے کیوں کہ جرمنی کی آئینی عدالت اور لیبر عدالت کسی ایک موقف پر متفق نہیں ہو سکی ہیں۔ چرچ نے ڈاکٹر کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت میں اپیل کر دی تھی، جہاں آئینی عدالت کا کہنا تھا کہ چرچ کو مخصوص آئینی تحفظ حاصل ہے۔

دوسری جانب جرمنی کی وفاقی لیبر عدالت کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں چرچ کی طرف سے غیرمنصانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ کیتھولک مذہب جرمنی میں ریاستی اور قانونی طور پر لی گئی طلاق کو تسلیم نہیں کرتا۔ اب ریاستی قانون کے مطابق تو ڈاکٹر طلاق لے چکا ہے لیکن چرچ کی نظر میں وہ طلاق یافتہ نہیں ہے اور اس طرح دو شادیاں کر کے اس نے مذہبی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ چرچ کا یہ قانون صرف کیتھولک مسیحیوں پر لاگو ہوتا ہے۔ یورپی عدالت برائے انصاف کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا چرچ کو اس طرح اپنے ملازمین کے ساتھ دوہرا رویہ اختیار کرنے کی اجازت ہے کہ نہیں۔

کیتھولک چرچ نے حالیہ چند برسوں میں متعدد اصلاحات متعارف کروائی ہیں، جن کے تحت مختلف عقائد کے افراد کو بھی چرچ کے زیر انتظام چلنے والے اداروں میں کام کرنے کی اجازت ہے لیکن معاہدوں کے مطابق کیتھولک مسیحیوں کے لیے سخت قوانین رکھے گئے ہیں۔