1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دوہزار تیس تک بھوک ختم کرنے کا دعویٰ

عبدالستار، اسلام آباد
30 جولائی 2021

پی ٹی آئی کی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ دوہزار تیس تک ملک سے بھوک بالکل ختم کردے گی لیکن ناقدین یہ سوال کر رہے ہیں کہ یہ ہوگا کیسے۔

https://p.dw.com/p/3yKm7
Pakistan HIV-Test
تصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassum

اس بات کا دعویٰ وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ سید فخر امام نے اسلام آباد میں کیا۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت اس حوالے سے خوراک کی قیمتوں میں استحکام لانے کا ارادہ رکھتی ہے اور سماجی تحفظ کے لیے کام کرنے کی بھی خواہاں ہے۔

کیلیفورنیا کے اسکولوں میں طلبا کے لیے ’مفت لنچ پروگرام‘

کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے بھوک میں بھی اضافہ

لیکن ناقدین حکومت کے ان دعووں پر کئی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ خیال رہے کہ ماضی میں ن لیگ اور دوسری حکومتوں نے بھی اسی نوعیت کے دعوے کیے تھے لیکن پاکستان میلینیم ڈویلپمنٹ گولز کو حاصل کرنے میں دوہزار پندرہ میں ناکام رہا اور اب یہ امکان بھی نہیں کہ وہ سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز دوہزار تیس تک حاصل کر سکے، جس کا ایک نکتہ بھوک کو ختم کرنا ہے۔

معروف ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ جب تک غربت کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی بھوک کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''غربت ختم کرنے کے لیے ہمیں انڈسٹریز اور زراعت میں روزگار کے ذرائع پیدا کرنے پڑیں گے لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ حکومت ایک طرف شوگر انڈسٹری کو سبسڈی دیتی ہے اور دوسری طرف ہم چینی کو درآمد کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہم کپاس کو بھی اب درآمد کر رہے ہیں۔ تو ایسی صورت میں روزگار کے مواقع کہاں سے پیدا کیے جا سکتے ہیں اور غربت کو کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھاکہ یہ سوال بھی اہم ہے کہ غربت کو ختم کرنے کے لیے اگر رقم مختص کی جائے گی تو وہ رقم کہاں سے آئے گی۔ ''ہم غربت کو یقینا ختم کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے رقم مختص کی جانی چاہیے اور وہ رقم کہاں سے آئے گی ہمیں یہ طے کرنا پڑے گا۔  رقم کے لیے ہمیں مالی اور دوسری اصلاحات کرنی پڑیں گی۔ احساس پروگرام سے غربت کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح کے مائیکرو اقدامات سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘

Freies Bildformat, Erdbeben Pakistan, ein Mädchen ist Brot
پاکستانی میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد غربت اور ناکافی خوراک کا سامنا کر رہی ہےتصویر: AP

ڈویلپمنٹ سیکٹر کے ماہرعامر حسین کا کہنا ہے کہ ملکی بجٹ کا 90 فیصد حصہ دفاع، گردشی قرضے، بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں پر خرچ ہو جاتا ہے۔ ''اگر ہم چودہ سو ارب سے زیادہ کا بھی بجٹ غربت کو ختم کرنے کے لئے مختص کردیں تو بھی ہم اس کو ختم نہیں کر سکتے کیونکہ ہماری آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ہماری زرعی پیداوار کم ہوتی جا رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف وفاقی بجٹ کو کم کیا جائے بلکہ گردشی قرضے اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کے خسارے کو بھی روکا جائے ورنہ غربت اور بھوک کو ختم کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔‘‘

عامر حسین کا کہنا ہے کہ ماضی کی حکومت بھی غربت اور بھوک کو ختم کرنے والے چیلنجز سے نبرد آزما نہیں ہو سکی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''2000 میں جب اقوام متحدہ نے ملینیم ڈویلپمنٹ گولز پروگرام کا افتتاح کیا تو پاکستان نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ دو ہزار پندرہ تک غربت کی شرح کو آدھا کر دے گا۔ ایسے افراد جو سن دو ہزار اور 2002 میں غربت کا شکار تھے، ان کی تعداد آبادی میں تقریبا 28 فیصد شرح تھی لیکن 2015 میں وہ 36 فیصد ہوگئی۔ 2002 میں 35 فیصد آبادی کو غذائی قلت اور بھوک کا سامنا تھا یعنی ایسے افراد جو پچیس سو سے کم کیلوریز لے رہے تھے لیکن 2015 میں ایسے افراد کی تعداد بڑھ کر پینتالیس فیصد ہوگی۔‘‘

عامر حسین کے بقول نواز شریف کے دور میں یہ شرح کچھ کم ہوئی تھی۔ ''لیکن یہ گزشتہ تین سالوں میں مزید بڑھ گئی ہے اور اب یہ تقریبا 45 فیصد سے اوپر ہے۔ تو ایسے میں پاکستان 2030 تک بھوک کیسے ختم کرے گا۔ پاکستان بھوک کے حوالے سے سب صحارن افریقہ کے ممالک کی صف میں کھڑا ہوا ہے اور بلوچستان میں بھوک اور غذائی قلت کی صورتحال انتہائی خوفناک ہے۔ تقریبا ستر فیصد آبادی بارہ سو یا اس سے تھوڑی زیادہ کلوریز لیتی ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس صورت حال سے سب سے زیادہ خواتین متاثر ہورہی ہیں۔ ''ساٹھ فیصد حاملہ خواتین کو ضرورت کے مطابق غذائیں نہیں ملتیں جس کی وجہ سے 40 فیصد کے قریب بچے ایسے ہیں جن کے مستقبل میں قد نہیں بڑھ پائیں گے ۔‘‘

کورونا وائرس: پاکستان میں لاکھوں مزدور بے روزگار

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ماہر ڈاکٹر آمنہ حسن قیصر بنگالی کی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ غربت کو ختم کئے بغیر بھوک کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں غربت ختم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے تو ایسے میں بھوک کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے بھوک کو ختم کرنے کے لئے غربت کو ختم کرنا ہوگا۔‘‘

ان کا مزی‍د کہنا تھا کہ بھوک کا ایک صنفی پہلو بھی ہے۔ ''بھوک و افلاس کی وجہ سے خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ پاکستان میں عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ مرد پہلے کھانا کھاتے ہیں اور خواتین بعد میں۔ ملک میں غذائی قلت کی شکار افراد میں ایک بڑی تعداد خواتین کی ہے۔‘‘