1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دو ہزار سولہ میں صحافیوں کی ہلاکتیں کم لیکن شدید خطرات باقی

مقبول ملک
19 دسمبر 2016

سال دو ہزار سولہ کے دوران اب تک دنیا کے مختلف ملکوں میں کم از کم چوہتر صحافی ہلاک یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔ یہ تعداد دو ہزار پندرہ کے مقابلے میں کم ہے لیکن صحافیوں کو بین الاقوامی سطح پر ابھی بھی شدید خطرات کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/2UVNK
Journalisten bei der Arbeit in Tunesien
اس سال اب تک دنیا بھر میں چوہتر صحافی ہلاک یا لاپتہ ہو چکے ہیںتصویر: Imago/G.Angular

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کی سال رواں کے لیے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2016ء کے دوران اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران مختلف ملکوں اور خطوں میں مارے جانے والے صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کی تعداد ایک سال پہلے کے مقابلے میں کم ہو کر اگرچہ 74 رہ گئی لیکن ساتھ ہی ایسے صحافیوں کی تعداد بہت زیادہ ہو چکی ہے جنہیں ان کی فرائض کی ادائیگی کے دوران یا اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کی غیر جانبدارانہ ادائیگی کی وجہ سے گرفتار کر لیا گیا۔

Logo Reporter Ohne Grenzen englisch

رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز یا RSF کی پیر انیس دسمبر کے روز شائع کردہ اس رپورٹ کے مطابق 2016ء کے دوران مجموعی طور پر پوری دنیا میں 74 صحافی اپنی ذمے داریاں انجام دیتے ہوئے ہلاک ہو گئے جبکہ 2015ء میں مارے جانے والے صحافیوں کی تعداد کم از کم بھی 110 رہی تھی، جن میں سے 67 اپنے صحافتی فرائض انجام دیتے ہوئے موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ اس کے برعکس سال رواں کے دوران دنیا بھر میں ایسے صحافیوں کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے، جنہیں ان کی پیشہ ورانہ کارکردگی کے دوران یا اس کی وجہ سے غیر اعلانیہ حراست میں لے لیا گیا یا پھر باقاعدہ طور پر گرفتار کر لیا گیا۔

آزادی صحافت پر نظر رکھنے والی اس بین الاقوامی تنظیم کے مطابق اس سال کے آغاز سے لے کر اس مہینے کے اوائل تک دنیا بھر میں گرفتار کیے جانے والے صحافیوں کی تعداد 384 ہو چکی تھی۔ مختلف ملکوں میں اس سال جیلوں میں ڈالے جانے والے صحافیوں کی یہ تعداد گزشتہ برس کے مقابلے میں چھ فیصد زیادہ ہے۔

صحافیوں کے لیے سب سے بڑی جیل بنتا ہوا ترکی

Reporters Without Borders یا RSF کی اس رپورٹ کے مطابق جو ایک ملک اپنے ہاں آزادی صحافت کے خلاف اقدامات کی وجہ سے میڈیا کارکنوں کے لیے ’سب سے بڑی جیل‘ بنتا جا رہا ہے وہ ترکی ہے، جہاں حکومت اس سال جولائی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے وسیع تر گرفتاریاں اور برطرفیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

Archivbild Türkei Protest Menschenrechte
ترکی میں جیلوں میں بند صحافیوں کی تعداد میں چار گنا اضافہ: آر ایس ایفتصویر: Getty Images/AFP/O. Kose

آر ایس ایف کے مطابق ترکی میں اس سال جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے ابھی تک زیر حراست صحافیوں کی تعداد کم از کم بھی 22 ہے، جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہاں پابند سلاسل کیے جانے والے صحافیوں کی تعداد گزشتہ برس کے مقابلے میں چار گنا ہو چکی ہے۔

اس رپورٹ کے اجراء کے موقع پر رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے سیکرٹری جنرل کرسٹوف دیلوآئر نے کہا، ’’دنیا بھر میں صحافیوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کی شرح میں انتہائی تشویش ناک رفتار سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر یورپ کی دہلیز پر واقع ملک ترکی میں جیلوں میں بند درجنوں صحافیوں کی وجہ سے یہ ملک ذرائع ابلاغ کے شعبے میں دنیا کی سب سے بڑی جیل بنتا جا رہا ہے۔‘‘

اس حوالے سے صحافیوں کی اس بین الاقوامی تنظیم کے سیکرٹری جنرل نے یورپی یونین پر بھی شدید تنقید کی اور کہا کہ یورپ ترکی میں آزادی صحافت کو یقینی بنانے کے لیے کافی اور نتیجہ خیز اقدامات کرنے میں ناکام رہا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں