1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’دہشت گردوں اور فوج کے مابین پھنسی عوام‘‘

ناؤمی کونراڈ / عدنان اسحاق 2 نومبر 2015

جزیرہ نما سینائی میں مصری فوج نے اسلامک اسٹیٹ کے حامی ایک گروہ کے خلاف کارروائی شروع کی ہوئی ہے۔ تاہم ان سخت اقدامات کے شکار علاقے کے عام شہری بھی ہو رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GyFD
تصویر: picture-alliance/AP Photo/ El Shorouk Newspaper/A. A. El Latif

مصری دارالحکومت قاہرہ کے ایک کیفے میں بیٹھے سعید عتیق نے بتایا ’’ میں سینائی میں دہشت گرد گروہ کے سربراہ کو بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں۔ شادی المینائی میرے ایک پڑوسی علاقے میں پروان چڑھا تھا اور ہم قبائل کے مابین ہونے والی ملاقات میں ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ وہ بالکل ایک عام سا لڑکا تھا میری اور تمہاری طرح‘‘۔ عتیق کا تعلق سینائی کے ایک چھوٹے سے ریگستانی علاقے ’’شبانہ‘‘ سے ہے، جو اسرائیلی سرحد سے کچھ زیادہ دور نہیں۔ عتیق اور اس علاقے کے دوسرے افراد کہتے ہیں کہ آج کل شبانہ میدان جنگ بنا ہوا ہے۔’’ نوے فیصد لوگ علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور شبانہ آج کل ایک ویرانے میں تبدیل ہو چکا ہے‘‘۔

ان حالات کے ذمہ دار شادی المینائی جیسے افراد ہیں۔ تشدد پر آمادہ ان افراد کی سرگرمیاں 2013ء میں فوج کے ہاتھوں صدر محمد مرسی کی معزولی کے فوراً بعد بہت زیادہ بڑھ گئی تھیں۔ ان میں ’’ انصار بیت المقدس‘‘ نامی گروپ بھی ہے، جو اسلامک اسٹیٹ سے الحاق کے بعد اب ’ولایت سینائی یا صوبہ سینائی‘ کہلاتا ہے۔ ان تنظیم کے دہشت گردانہ حملوں میں اب تک کئی سو مصری فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ساتھ ہی یہ تنظیم قاہرہ میں بھی فعال ہے۔ دوسری جانب فوجی کارروائی میں اب تک پانچ سو دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا گیا ہے۔

Ägypten Sinai Grenze
تصویر: Reuters/A. Cohen

عتیق کے مطابق اسے اچھی طرح علم ہےکہ یہ دہشت گرد کس طرح سے کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس نے سفید رنگ کے اپنے اسمارٹ فون پر ایک دھندلی سے تصویر دکھائی، جس میں گرد میں اٹی ہوئی ایک جیپ کو دیکھا جا سکتا تھا۔ ’’ یہ گاڑی اسلحہ کی ترسیل اور اسے ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ ان افراد کو علم ہے کہ اپنے نشان کو مٹاتے ہوئے کیسے فرار ہوا جاتا ہے‘‘۔

فوجی آپریشن کے دوران تنازعے کے شکار اس علاقے میں غزہ کی سرحد سے متصل تین ہزار سے زائد گھر تباہ کیے جا چکے ہیں، جس کے بعد یہ خاندان در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق قاہرہ حکومت کا یہ اقدام عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور ان بے گھر افراد کو کافی معاوضہ بھی ادا نہیں کیا گیا۔ مصری حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔

سعید عتیق کے مطابق اسے بھی اپنی جان کا خطرہ ہے۔ اس نے بڑی آہستگی سے کہا ’’مجھے نہیں پتا کہ میں قاہرہ میں محفوظ ہوں یا نہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی میرے ایک دوست کو قاہرہ میں گھر کے دروازے پر گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔‘‘ عتیق کے مطابق اسے یقین ہے کہ اس کارروائی کے پیچھے ’صوبہ سینائی‘ نامی دہشت گروپ کے ہاتھ ہے۔