1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت گردی کی مبینہ توثیق، آسٹریلوی مفتی اعظم کا جوابی مقدمہ

مقبول ملک23 اپریل 2016

آسٹریلوی مسلمانوں کے اعلیٰ ترین مذہبی رہنما مفتی اعظم ابراہیم ابومحمد نے اپنے خلاف دہشت گردی کی مبینہ توثیق اور مذہبی خونریزی کی حمایت کے الزامات کے بعد ایک آسٹریلین جریدے کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1IbLp
Australien Muslime Moschee in Sydney
سڈنی کی ایک مسجد میں مقامی مسلمان جمعے کا خطبہ سنتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa/M. Tsikas

سڈنی سے ہفتہ تئیس اپریل کے روز موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق مقامی ذرائع ابلاغ نے آج لکھا کہ سڈنی سے شائع ہونے والے روزنامے ڈیلی ٹیلیگراف نے اپنے متعدد مضامین میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ مفتی اعظم ابراہیم ابومحمد دہشت گردی کو جائز قرار دیتے ہیں۔

روزنامہ گارڈیئن کے مطابق اپنے خلاف اس طرح کے مضامین کی اشاعت کے بعد جمعہ بائیس اپریل کو مفتی اعظم نے اس بارے میں جریدے ڈیلی ٹیلیگراف کے خلاف باقاعدہ مقدمہ دائر کر دیا کہ اس اخبار نے انہیں ’فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں دہشت گردانہ حملوں سے متعلق توثیقی رویہ اختیار کرنے والا مسلم رہنما‘ اور ’خونریز مسلم جہاد کا حمایتی‘ قرار دیا ہے۔

مفتی اعظم ابومحمد، جو آسٹریلوی سنی مسلم برادری کے سرکردہ ترین مذہبی رہنما ہیں، کے بارے میں سڈنی کے اخبار ڈیلی ٹیلیگراف نے یہ تاثر پیرس میں گزشتہ برس 13 نومبر کے دہشت گردانہ حملوں کے تناظر میں شائع ہونے والے اپنے مضامین میں دیا تھا۔

اس کثیر الاشاعت جریدے نے تب اپنے صفحہ اول پر مفتی اعظم کی تین مختلف جسمانی حالتوں میں تین ایسی تصویریں بھی شائع کی تھیں، جن میں انہیں ایک ایسی شخصیت کے طور پر پیش کیا گیا تھا، جس نے اپنی آنکھوں، کانوں اور منہ کو بند کر رکھا ہو۔ ان تین تصویروں کے نیچے کیپشن کے طور پر لکھا گیا تھا: ’’نہ کوئی مسئلہ دیکھو، نہ کوئی تشویش سنو، نہ انگلش بولو۔‘‘

اس کے بعد اسی آسٹریلین جریدے نے اپنے ایک اور آرٹیکل میں یہ سرخی بھی لگائی تھی: ’’(فلسطینی تنظیم) حماس تک نے پیرس حملوں کی مذمت کی ہے، لیکن آسٹریلیا کے مفتی اعظم ابراہیم ابومحمد ایسا کیوں نہیں کرتے؟‘‘

ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ عسکریت پسند مسلمانوں کی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے جہادیوں کی طرف سے کیے گئے پیرس حملوں کے دو روز بعد مفتی اعظم ابومحمد نے ایک بیان جاری کیا تھا، جس میں انہوں نے ’معصوم انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے افسوس‘ کا اظہار کیا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں