1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پاکستان کی اقتصادی صورت حال

امتیاز گل ، اسلام آباد20 اپریل 2009

رواں سال کے پہلے دس ہفتوں کے دوران 22 خود کش حملوں میں تقریبا 75 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے ایک چوتھائی تعداد پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کی تھی جو خاص طور پر صوبہ سرحد کے مختلف علاقوں میں ہونے والے حملوں کا نشانہ بنے۔

https://p.dw.com/p/HatL
دہشت گردی کے پے درپے واقعات نے پاکستان کی اقتصادی صورت حال پر انہائی منفی اثرات مرتب کئے ہیںتصویر: Shah Abdul Sabooh

2006 سے اب تک دہشت گردی کے واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 12000 سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ اسی طرح قبائلی علاقوں، صوبہ سرحد اور وادی سوات میں روز افزوں عدم استحکام اور غیر یقینی صورت حال کے باعث جہاں کاروبار زندگی مسلسل متاثر ہو رہا ہے وہاں 250 کے قریب گرلز سکولز اور صرف سوات اور مالاکنڈ میں پچاس سے زائد پلوں اور سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچا ہے جبکہ ایک ملین یعنی دس لاکھ سے زائد افراد سوات، باجوڑ اور وزیرستان سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔

دہشت گردی کے متاثرین کی بحالی اور مالی امداد ایسے امور بھی حکومت کے لئے درد سر کا باعث بنے ہیں۔ مثلا گزشتہ تین برسوں کے دوران خودکش حملوں کے دوران ہلاک شدگان کے لواحقین کو1 کروڑ سے زائد قضرتلافی ادا کیا گیا جبکہ پیرا ملٹری اور پولیس کے متاثرین میں 17کروڑ کے قریب معاوضے تقسیم کئے گئے۔ دوسری طرف سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سالانہ تقریبا چھ ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے اور غالبا اسی بنیاد پر صدر آصف زرداری نے 17 اپریل کو ٹوکیو کانفرنس کے موقع پر پاکستان کے لئے کم از کم 20 ارب ڈالر مالیتی مارشل پلان کا مطالبہ کیا جبکہ امریکی ایلچی ہالبروک کے بقول پاکستان کی ضروریات اس سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔

Bombenanschlag in Islamabad
عسکریت پسندوں کی کارروئیوں میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہےتصویر: AP

اس حوالے سے یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ صوبہ سرحد کے سینئر وزیر رحیم داد خان نے 19 اپریل کو وفاقی حکومت سے باقاعدہ طور پر مطالبہ کیا ہے کہ صوبے کی تباہ حال معیشت کی بحالی کے لئے انہیں500 ارب روپے درکار ہوں گے۔

ترقیاتی امور کے تجزیہ نگار ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار سے قطع نظر پاکستانی اور غیر ملکی حکومتوں کو سماجی، معاشی ناہمواریاں ختم کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔

’’اگر آپ دہشت گردی کو روکنا چاہ رہے ہیں تو سب سے پہلے وہاں پر پیش آنے والی مشکلات اور وہاں کے لوگوں کی غربت کے اسباب کے بارے میں سوچنا ہو گا کیونکہ خودکش حملہ آور اور دوسرے عسکریت پسندوں کے پاس کھونے کے لئے سوائے غربت کی زنجیروں کے اور کچھ نہیں تو یقینا وہ سب کے سب خودکش حملہ آور بنتے چلے جا رہے ہیں۔‘‘

اکثر تجزیہ نگاروں کے خیال میں بین الاقوامی برادری نے بظاہر پاکستان کی امداد پر آمادگی تو ظاہر کی ہے تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی سیاسی قیادت اور افسر شاہی اس امداد سے فائدہ اٹھانے کے لئے جلد از جلد قابل عمل منصوبے تیار کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔