1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نقطہ نظر گمراہ کن ہے: ڈیوڈ ملی بینڈ

افتخار گیلانی، نئی دہلی15 جنوری 2009

ڈیوڈ ملی بینڈ نے کہا کہ امریکہ کے صدر جارج واکر بش کا دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ یا وارآن ٹیرر کا نقطہ نظرگمراہ کن تھا اور غلط حکمت عملی نے دنیا بھرمیں انتہا پسندوں کو مغرب کے خلاف متحد ہونے کا موقع فراہم کردیا۔

https://p.dw.com/p/GZBt
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈتصویر: AP

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے بھارت کے دورے کے آخری دن اور پاکستان روانہ ہونے سے قبل ممبئی میں یہ بیان دے کر ہلچل مچا دی۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کا جواب انسانی حقوق کی بالادستی سے دیا جانا چاہئے۔

دوسری طرف جموںو کشمیر کے حوالے سے ان کے بیان پر بھی بھارت نے شدید اعتراض کیا ہے۔

ڈیوڈ ملی بینڈ نے ممبئی حملوں میں دہشت گردوں کا نشانہ بننے والے ٹرائیڈنٹ ہوٹل میں دہشت گردی کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کا صحیح اور مناسب طریقہ قانونی اورانسانی حقوق کی بالادستی میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد وار آن ٹیرریا دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اصطلاح نے دہشت گردوں سے نمٹنے کے اصول تو طے کردیئے لیکن صحیح مقصد ہونے کے باوجود یہ خیال غلط فہمی پیدا کرنے والا ثابت ہوا۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے مورخین ہی اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ کہیں اس اصطلاح سے فائدہ سے زیادہ نقصان تو نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اس اصطلاح نے اس تصور کو جنم دیا کہ دہشت گردی کا جواب فوجی طاقت کا استعمال ہے یعنی دہشت گردوں کا پتہ لگا کر انہیں ہلاک کرنا لیکن اس سے مسئلے کو حل کرنے میں کوئی خاص مدد نہیں ملی اس لئے فوجی کارروائی کے بجائے کثیر جہتی اپروچ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ تجربات نے ثابت کردیا کہ دہشت گردی کو فوجی کارروائی کے ذریعہ نہیں روکا جاسکتا اور اب وقت آگیا ہے کہ حقوق انسانی اور شہری آزادی کا بول بالا ہو۔

Grenze zwischen Indien und Kaschmir Soldaten
پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی بار براہ راست جنگ ہو چکی ہےتصویر: AP

ڈیوڈ ملی بینڈ نے یہ باتیں ایسے وقت میں کہی ہیں جب پہلی مرتبہ وار آن ٹیرر کی اصطلاح دینے والے امریکی صدرجارج واکر بش پانچ دن بعد عہدہ صدارت سے سبکدوش ہونے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کوئی ادارہ ہا نقطہ نظر نہہں ہے ۔ ہہ اہک مہلک طرہقہ اور منصوبہ ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ مختلف دہشت گرد گروپوں کو مختلف مقاصد کے لئے کام کرنے والے الگ الگ گروپ سمجھا جائے اور یہ مان لیا جائے کہ یہ جنگ اعتدال پسند اور انتہاپسندی یا اچھائی اور برائی جیسی دو طاقتوں کے درمیان نہیں ہے کیوں کہ ایسا سمجھنا ایک غلطی ہے۔

ملی بینڈ نے بھارت پاکستان تنازعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کو مل کر کام کرنا چاہئے اور کشمیر کے مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہئے تاکہ اس خطے کے لوگوں کو اسلحہ اٹھانے کا موقع نہیں مل سکے اور پاکستان بھی اپنی مغربی سرحدوں کی حفاظت بہتر ڈھنگ سے کرسکے۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ڈیوڈ ملی بینڈ کے بیان پرشدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو بن مانگے مشوروں کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملی بینڈ کا ذاتی بیان ہے اور ایک آزاد معاشرے میں لوگو ں کو اپنے رائے کے اظہار کا حق ہے تاہم بھارت کے اندرونی معاملات بالخصوص جموں و کشمیر کے سلسلے میں اسے کسی دوسرے کے مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔

بھارت میں سب سے بڑی اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی ڈیوڈ ملی بینڈ کے بیان پر نکتہ چینی کی ہے اور کہا کہ ممبئی حملوں کے سلسلے میں پاکستان پر دباو بنانے کی بھارت کی حکومت کی کوششیں ناکام ثابت ہورہی ہیں کیوں کہ کانگریس پارٹی کی قیادت والی حکومت برطانیہ اور امریکہ کے آگے جھک گئی ہے۔

اس دوران سول سوسائٹی کی تنظیموں نے ممبئی حملوں کے پس منظر میں آرمی چیف جنرل دیپک کپور کی طرف سے دیئے گئے بیان پر نکتہ چینی کی ہے۔ جنرل کپور نے کہا کہ ممبئی پر دہشت گردانہ حملہ بھارت کے صبر و تحمل کا امتحان تھا اور بھارتی فوج دہشت گردی سے پیدا شدہ ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے۔ وہ اپنی سرزمین اورعوام کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے تمام ممکنہ راستےاب متبادل کا استعمال کرسکتی ہے۔ سول لبرٹیز کے مشہور کارکن جسٹس راجند سچر نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ کوئی سیاسی لیڈر تواس طرح کا بیان دے سکتا ہے لیکن آرمی چیف کو اس طرح کے بیان دینے کا حق نہیں ہے اور موجودہ ماحول میں تواسے کسی بھی طرح سے مناسب نہیں کہا جاسکتا ‘‘۔

جسٹس راجندر سچر نے کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ پاکستان ممبئی حملوں کے متعلق بھارت کی طرف سے پیش کردہ ثبوتوں کو نظر اندازکررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس نے بہر حال کسی نہ کسی طرح اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ ان حملوں میں زندہ گرفتار ہونے والا واحد دہشت گرد عامر اجمل قصاب پاکستانی شہری ہے اس کے علاوہ اس نے کئی لوگوں کو گرفتارکیا ہے اس لئے ایک دوست اور پڑوسی ہونے کے ناطے ہمیں اس پر اعتماد کرنا چاہئے‘‘۔