1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہلی کے اسٹریٹ چلڈرن کا مقبول ہوتا ہوا ’بالک نامہ‘

امتیاز احمد14 اپریل 2016

جوتی کُماری کا شمار بھی نئی دہلی کے ان ہزاروں بے گھر بچوں میں ہوتا ہے، جو سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر اپنی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان بچوں کو کن کن مسائل کا سامنا ہے شاید ہی جوتی کے علاوہ کوئی زیادہ بہتر جانتا ہو۔

https://p.dw.com/p/1IVuj
Indien Straßenkinder in Neu Delhi - Jyoti Kumari
تصویر: Getty Images/AFP/C. Khanna

سولہ سالہ جوتی کماری نے کبھی بھی کسی اسکول سے تعلیم حاصل نہیں کی لیکن نئی دہلی میں بچوں کے نکلنے والے اخبار میں اس کا کردار انتہائی اہم ہے۔ یہ اخبار ان بچوں کی آواز بن چکا ہے، جو بے گھر ہیں اور انہیں مسلسل مسائل کا سامنا رہتا ہے۔

ایک ٹیبل کے گرد جمع یہ بے گھر بچے اپنے آئندہ کے ایڈیشن کے لیے پلاننگ کر رہے ہیں۔ جوتی کماری کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اب بالک نامہ (بچوں کی آواز) کے ستر رپورٹر ہو گئے ہیں۔ ہم ان سے اسٹوریاں جمع کرتے ہیں، ان کی تصدیق کی جاتی ہے اور پھر ہم میں سے کوئی ایک انہیں ٹائپ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کے بعد یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کون سی خبر کس صفحے پر آئے گی اور پھر اسے پرنٹ کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔‘‘

Indien Straßenkinder in Neu Delhi - Jyoti Kumari
تصویر: Getty Images/AFP/C. Khanna

اس اخبار میں پُلوں کے نیچے رہنے والوں سے لے کر بڑے خاندانوں کی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کی کم عمری میں شادیاں، بچوں کے ساتھ ہونے والے تشدد، جنسی زیادتی اور منشیات کے استعمال جیسے موضوعات کو بھی زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔

بچوں کے اس اخبار کی سب سے بڑی اسٹوری ان پولیس اہلکاروں سے متعلق تھی، جو ریلوے ٹریک پر ہلاک ہونے والوں یا پھر خودکشی کرنے والوں کی باقیات بے گھر بچوں سے اٹھواتے تھے۔ تاہم اب حکام نے پولیس والوں کی یہ پریکٹس بند کروا دی ہے۔

Indien Straßenkinder in Neu Delhi
تصویر: Getty Images/AFP/C. Khanna

کماری کے والد بیمار بھی تھے اور شراب کے بھی عادی تھے۔ اسے اپنے پانچ بہن بھائیوں کے لیے کھانا خریدنے کے لیے بعض اوقات بھیک بھی مانگنا پڑتی تھی اور کچرا بھی اٹھانا پڑتا تھا۔ سن دو ہزار دس میں اس کی ایک اتفاقیہ ملاقات ایک غیر سرکاری تنظیم چیتنا کی ایک استانی سے ہوئی اور اسی ملاقات نے جوتی کُماری کو نئی امید دلائی، ’’میں اس ٹیچر سے بہت متاثر ہوئی اور مجھے تعلیم کی اہمیت کا بھی پتہ چلا۔‘‘ وہ خاتون ٹیچر جوتی کُماری کو چیتنا تنظیم کے اس شیلٹر ہاؤس لے آئی، جو بے گھر بچوں کے لیے بنایا گیا ہے۔

یہ غیر سرکاری تنظیم دہلی کے تقریباﹰ دس ہزار بے گھر بچوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے اور انہیں تعلیم بھی فراہم کرتی ہے۔ اسی تنظیم نے جوتی کماری کو جرنلزم ورکشاپ میں داخل کروایا اور اس کے چند ہی ہفتے بعد اسے انٹرویوز کرنے کا کام سونپ دیا گیا۔

بے گھر بچوں کے اس اخبار کا آغاز سن 2002ء میں کیا گیا تھا اور یہ سہ ماہی بنیادوں پر شائع کیا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اب یہ ماہانہ بنیادوں پر شائع کیا جاتا ہے جبکہ اس کی دس ہزار کاپیاں فروخت ہوتی ہیں۔