1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دینی مدارس کو کنٹرول کرنے کا حکومتی منصوبہ کہاں تک پہنچا؟

شکور رحیم، اسلام آباد25 فروری 2016

پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان کے تحت سب سے زیادہ غیر اندراج شدہ اور مشتبہ167مدارس صوبہ سندھ میں تیرہ خیبر پختوانخواہ میں اور دو مدارس پنجاب میں بند کیے گئے۔

https://p.dw.com/p/1I255
Madrassa Pakistan
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ امور بلیغ الرحمان نے قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران ایک سوال کے تحریری جواب میں بتایا کہ سب سے زیادہ مشتبہ167 مدارس صوبہ سندھ میں تیرہ خیبر پختوانخواہ میں اور دو مدارس پنجاب میں بند کیے گئے۔ انہوں نے ایوان کو بتایا کہ سندھ میں 72غیر اندراج شدہ مدارس کو بھی بند کیا گیا۔

حکومت کی جانب سے فرقہ واریت پھیلانے والے مدارس کے خلاف کارروائی کا بتاتے ہوئے بلیغ الرحمان نے کہا کہ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے ایک سو دو مدارس کو سیل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اب تک چوبیس سو اکہتر مقدمات درج کیے گئے ہیں جبکہ تئیس سو پینتالیس افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ اس ضمن میں تہتر دوکانیں اور کاروبار بھی بند کیے گئے۔ وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان کے تحت لاؤڈ اسپیکر کے غلط استعمال پر دس ہزار مقدمات درج کیے گئے اور دس ہزار ایک سو ستتر افراد کو گرفتار کیا گیا۔

مدارس کے اندراج کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیر مملکت نے کہا، ’’حکومت نے وفاق اور پنجاب میں طے شدہ طریقہ کار کے مطابق مدارس کا سروے مکمل کر لیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ سندھ میں اسی فیصد خیبر پختوانخواہ میں 75 جبکہ بلوچستان میں ساٹھ فیصد مدارس کا سروے مکمل کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے ایوان کو بتایا کہ ملک میں ایک سو نوے مدارس ایسے ہیں جن میں سے ایک سو سینتالیس پنجاب میں تیس بلوچستان میں، خیبر پختوانخواہ میں سات اور سندھ میں چھ مدارس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تین ہزار چھ سو باسٹھ مدارس کی جیو ٹیگنگ مکمل کر لی گئی ہے۔

Pakistan Koranschule in Lahore Schüler
تصویر: AP

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے ایوان میں پیش کیے گئے سرکاری اعدادو شمار میں تضاد معلوم ہوتا ہے۔ مدارس، شدت پسندی اور مذہبی تنظیموں کے امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار عامر رانا کا کہنا ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن کے معاملے پر پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’سرکاری سطح پر بھی اس بات کو تسلیم کیا جاتا رہا ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ اس نہج پر نہیں جہاں اسے ڈیڑھ سال بعد ہونا چاہیے تھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کے اندر مدارس کی بہت بڑی تعداد ہے جو غیر اندراج شدہ اور شدت پسندی میں ملوث ہے لیکن سرکاری اعدادو شمار کے مطابق دو مدارس کو مشتبہ ہونے پر بند کیا گیا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ملک میں جو مختلف مکاتب فکر کے مدارس کے بورڈ ہیں، ان کے تحت اٹھائیس ہزار سے زائد مدارس رجسٹرڈ ہیں جن میں تیس لاکھ طلبہ زیر تعلیم ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد میں غیر اندراج شدہ مدارس بھی ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے گزشتہ سال ستمبر میں وزیراعظم کی سربراہی اور بری فوج کے سربراہ کی موجودگی میں مدارس کے اتحاد کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ مدارس رجسٹریشن کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں وفاقی سیکرٹری داخلہ کی سربراہی میں مدارس کے نمائندوں اور متعلقہ حکام پر مشتمل ایک کمیٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا تھا۔ تاہم یہ کمیٹی بھی رجسٹریشن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں تاحال کامیاب نہیں ہو سکی۔

پاکستان میں دینی مدارس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے مدارس کے اندراج کے لیے جاری کیے گئے فارم میں ’غیر ضروری‘ اور بہت ہی ’پیچیدہ‘ معلومات طلب کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ مدارس کے منتظمین اس خدشے کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ حکومت مدارس کو اپنے کنٹرول میں لے کر وہاں اپنی مرضی کا نصاب پڑھانا چاہتی ہے۔