1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دیوار برلن کاانہدام: پاکستانیوں کے جذبات و احساسات

9 نومبر 2009

دیوار برلن کے انہدام کا واقعہ جہاں جرمنی کے شہریوں کیلئے نا قابلِ فراموش ہے وہیں دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان کے سیاسی، عوامی اور صحافتی حلقوں میں بھی اس تاریخی واقعے کی یادیں محفوظ ہیں۔

https://p.dw.com/p/KSCj
تصویر: AP

پنجاب یونیورسٹی میں سیاسیات کے استاد پروفیسر ارم خالد کا کہنا ہے کہ دیوارِ برلن کا انہدام پاکستانیوں کیلئے بھی ایک اہم واقعہ تھا۔ پروفیسر خالد کے مطابق عالمی دنیا کے اہم واقعات کی خبریں پاکستانی عوام تک بھی پہنچتی ہیں۔’’پاکستانی عوام کے اندر بھی اس واقعے کو ایک اہم ڈیویلپمنٹ کے طور پر دیکھا گیا۔ عوام کی بڑی تعداد نے عوامی طاقت کے ذریعے، دیوارِ برلن کے انہدام کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ بچھڑے ہوئے افراد کے دوبارہ ملنے کی خوشی کے مناظر کو پاکستانیوں نے بڑی خوشی سے دیکھا۔‘‘

پروفیسر خالد نے مزید کہا کہ اگرچہ پاکستانی بہت فاصلے پر صرف ٹیلی وژن کے ذریعے ہی دیوارِ برلن کے گرائے جانے کے مناظر دیکھ رہے تھے لیکن ان کے مطابق "مسرت کے اُن احساسات کو بھی پاکستانیوں نے محسوس کیا، جو دیوار گرانے والوں کے چہروں سے جھلک رہے تھے۔‘‘

عالمی امور کے ممتاز ماہر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ دیوارِ برلن کا گرایا جانا یورپ کی جدید تاریخ کا ایک بہت ہی اہم واقعہ ہے۔ حسن عسکری کے مطابق نومبر 1989 سے چند ماہ پہلے کوئی شخص یہ توقع نہیں کر سکتا تھا کہ حالات اتنی تیزی سے بدل جائیں گے۔ ڈاکٹر عسکری کے مطابق دیوارِ برلن کے انہدام اور اس کے ساتھ ہی افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی کے بعد پاکستان میں زیادہ تر سوچ وبچار اس مسئلے پر ہوتا رہا کہ نئی عالمی صف بندی کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ڈاکٹر عسکری نے مزید کہا کہ عوامی جذبات کے ساتھ ساتھ دو اور بڑے اسباب ایسے تھے جو دیوارِ برلن کے خاتمے کا باعث بنے۔’’ان میں سے ایک مشرقی جرمنی کے اقتصادی مسائل اور دوسرے گورپاچیف کی گلاس ناسٹ پالیسی بھی ان وجوہات میں شامل تھی، جو دیوار کے انہدام کا باعث بنی۔‘‘

ڈاکٹر عسکری کے مطابق پاکستان کیلئے دیوار ِ برلن کے انہدام کے واقعے میں یہ سبق موجود ہے کہ سماج میں بنیادی تبدیلیاں عوامی طاقت سے ہی ممکن ہوتی ہیں۔ ’’اس کیلئے عوام کے اندر اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے اور عوامی طاقت ہی کسی ملک میں جمہوریت کی بنیاد بن سکتی ہے۔ پاکستانیوں نے اپنی طاقت کا مظاہرہ حال ہی میں ججز کی بحالی کی تحریک کی صورت میں کیا تھا۔‘‘

انجینئیر سلیم اﷲ خان کا شمار ایسے پاکستانیوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے دیوارِ برلن ٹوٹنے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ وہ آج بھی یہ قصہ بڑی خوشی سے دوسروں کو سناتے ہیں۔ سلیم خان کا کہنا ہے: ’’جس وقت دیوارِ برلن ٹوٹ رہی تھی، میں اس وقت برلن میں موجود تھا۔‘‘ ان کے مطابق دیوار کے ٹوٹنے سے لوگوں کے چہروں پر جو بے مثال خوشی کے جذبات ظاہر ہو رہے تھے، وہ بہت دیدنی تھے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں بھی دیوارِ برلن کے گرائے جانے کو سراہا گیا اور لوگوں نے اس کی حمایت کی۔

نو جوان دانشور سلمان عابد کہتے ہیں کہ دیوارِ برلن کے انہدام سے پاکستان کو یہ پیغام ملتا ہے کہ مسائل کتنے ہی پیچیدہ اور مشکل کیوں نہ ہوں، انہیں بالاخر حل کیا جا سکتا ہے۔ ’’تنازعات خواہ دو صوبوں کے درمیان ہوں یا دو ریاستوں کے درمیان، ان کو حل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے اندر بھی ہمارے لئے دیوارِ برلن کے انہدام سے یہ سبق حاصل کیا جا سکتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں موجود تنازعات کو عوامی حمایت سے پر امن طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔‘‘

Mauerfall 1989
دیوار برلن کے گرنے کا ایک تاریخی منظرتصویر: AP

سلمان عابد کے مطابق پاکستان اور ہندوستان کے عوام اگر اپنی اپنی حکومتوں پر جرمن شہریوں کی طرح دباﺅ ڈالیں، تو دونوں ملکوں میں موجود تنازعات کو حل کیا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق دیوارِ برلن کا پیغام یہی ہے کہ تنازعات ہمیشہ برقرار نہیں رہ سکتے۔’’انہیں بہرحال ختم ہونا ہے۔

قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کا علاقہ متنازعہ حیثیت اختیار کر چکا ہے اور دونوں ملک اس مسئلے پر جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔

ممتاز دانشور اور کالم نگار عطا ءالرحمٰن کا کہنا ہے کہ دیوارِ برلن کے انہدام سے سرد جنگ کے دور کا خاتمہ ہوا۔ ان کے مطابق دیوارِ برلن کے انہدام کی خبر کو پاکستان میں تعجب اور مسرت سے سنایا گیا اور پاکستانی عوام میں اس خبر کو بیسیویں صدی کے اواخر میں ہونے والے ایک اہم واقعے کے طور پر لیا گیا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ دیوار ِ برلن کے انہدام کے بعد عالمی سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان کو اپنی نئی خارجہ پالیسی ترتیب دینی چاہئے تھی۔’’اس سلسلے میں زیادہ موثر کوششیں نہیں دیکھی جا سکی۔‘‘

بعض عوامی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں دہشت گردی کی جو دیوار کھڑی ہے، اسے بھی مل جل کر ہی دیوارِ برلن کی طرح توڑنا ممکن ہے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: گوہر نذیر گیلانی