1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دیوار برلن کے سائے، بیس سال بعد بھی

3 نومبر 2009

دیوار برلن کو گرے بیس سال ہو گئے ہیں لیکن بہت سے جرمن شہری آج بھی خود کو اس ناپید دیوار کے سائے میں محسوس کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/KMkt
عام جرمن شہری آج بھی اپنی ذات سے متعلق دستاویزات دیکھنے کے لئے برلن میں قائم شٹازی آرکائیوز کے دفتر میں درخواستیں جمع کرواتے ہیںتصویر: AP

کسی حقیقی دیوار کے سائے میں ہونے کے برعکس احساس کے اس فرق کی نوعیت یہ ہے کہ بہت سے جرمن باشندے یہ سائے اپنے ذہنوں اور دلوں میں محسوس کرتے ہیں جہاں ماضی کی دونوں جرمن ریاستوں کی باہمی سرحد پر پائے جانے والے اس ناپسندیدہ تعمیراتی ڈھانچے کی یادوں کے ساتھ بہت سے تکلیف دہ لمحات اور زخم بھی جڑے ہوئے ہیں۔

سابقہ مشرقی جرمنی میں ریاستی سلامتی کی وزارت یعنی شٹازی کی دستاویزات بھی اسی احساس کا تسلسل ہیں، جن کے صفحات کو اگر آج بھی پلٹا جائے تو ان پر پڑی گرد کے ساتھ ساتھ بہت سی دردناک سچائیاں بھی بیسیوں صدی کی جرمن تاریخ کی بہت سی بھیانک حقیقتوں کا عکس بن کر سامنے آ جاتی ہیں۔

Stasi Museum Stasi-Parole
Stasi نامی یہ وزارت سن 1950ء میں مشرقی جرمنی میں قائم کی گئی تھیتصویر: Bürgerkomitee Leipzig e.V.

سن 1950ء میں مشرقی جرمنی میں قائم کی گئی Stasi نامی یہ وزارت بعد کے عشروں میں اپنے بے شمار اہلکاروں کے ساتھ عام شہریوں کی معمول کی زندگی کی ان گنت تفصیلات تک رسائی حاصل کر چکی تھی۔ اس محکمے کے کاروندوں نے اپنے قائم کردہ عقوبت خانوں اور ہر شعبے میں جاسوسی کے بہت خطرناک نیٹ ورک کی مدد سے ہزار ہا شہریوں کو اپنا نشانہ بنایا۔ شٹازی کے لئے کام کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی اور حالت یہ تھی کہ اس وزارت کے نچلی سطح کے ایک دوسرے کو اپنا دوست سمجھنے والے کسی بھی دو اہلکاروں تک کو یہ علم نہیں ہوتا تھا کہ ایک دوسرے کی جاسوسی کر رہا ہے، یا وہ دونوں ایک ہی ادارے سے وابستہ ہیں۔ یہاں تک کہ عام کارکن اپنی محبوب شخصیات تک سے متعلق تمام راز شٹازی اہلکاروں تک پہنچا دیتے تھے۔

دیواربرلن کے گرائے جانے اور جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد، وفاقی حکومت نےسن 1992ء میں دس سال کے لئے شٹازی آرکائیوز کو عام لوگوں کے لئے کھولنے کا اعلان کیا تھا۔ تب حکومت کا خیال تھا کہ عام شہریوں کے لئے جرمن ریاستی تقسیم کے دور میں اپنے خلاف خفیہ اداروں کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی تفصیلات پڑھ سکنے کے لئے دس سال کا عرصہ کافی ہو گا۔ لیکن ان اندازوں کے عین برعکس عام جرمن شہری آج بھی اپنی ذات سے متعلق دستاویزات دیکھنے کے لئے برلن میں قائم شٹازی آرکائیوز کے دفتر میں درخواستیں جمع کرواتے ہیں۔

یوآخم فرِچ اسی قسم کے کرب سے گزرنے والا ایک شخص ہے۔ اسے کبھی یہ علم نہیں ہو پایا تھا کہ اسے ماضی میں اعلیٰ تعلیم کے حصول سے کیوں روک دیا گیا تھا اور کیوں اُسے دوران ملازمت کبھی ترقی نہیں ملی تھی۔ پھر ایک دن Joachim Fritsch کو 400 اوراق پر مشتمل وہ فائل ملی جس کے مندرجات کے مطابق اسے شٹازی کے اعلیٰ افسران نے غیر محب وطن قرار دے دیا تھا۔ شٹازی نے اسے 1950ء کے اواخر میں 17 سال کی عمر میں گرفتار کیا تھا۔ اس کا قصور محض یہ تھا کہ وہ وقتی طور پر اپنی شناخت بتانے میں ناکام رہا تھا کیونکہ چیکنگ کے وقت اس کی جیب میں اس کا شناختی کارڈ نہیں تھا۔ اوائل عمری کی اس گرفتاری نے اُس کی زندگی کے آنے والے مہینوں اور سالوں پر بہت گہرے اثرات مر تب کئے۔ اسی بنا پر اس کی نجی زندگی کے ساتھ ساتھ اس کی ملازمت اور کیریئر بھی بری طرح متاثر ہوئے۔

Deutschland DDR STASI Schiessbefehl Dokument
دیوار برلن کے خاتمے کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر بہت سے شہری اب اپنے بارے میں سرکاری دستاویزات پڑھنے میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیںتصویر: AP

Fritsch ان سینکڑوں جرمن باشندوں میں سے ایک ہے جنہوں نے صرف اپنی ہی فائل پڑھی ہے۔

مشرقی برلن میں ایک بلند و بالا رہائشی عمارت کی ساتویں منزل پر اپنے فلیٹ میں بیٹھا آج بوڑھا ہو چکا یہ جرمن شہری تقسیم اور اتحاد کی کہانی کو بھلا دینا چاہتا ہے۔

اس سال 9 نومبر کو دیوار برلن کے انہدام کے ٹھیک بیس سال پورے ہو جائیں گے۔ اسی تناظر میں شٹازی آرکائیوز کی انتظامیہ کو کسی دور میں شٹازی کے زیرحراست رہنے والے لوگوں کی طرف سے بہت سی درخواستیں بھی موصول ہو رہی ہیں۔

بہت سے مشرقی جرمن شہری جنہیں مشرقی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کے بعد رہا کیا گیا، ابتدائی چند سالوں تک اپنے بارے میں سابقہ خفیہ دستاویزات پڑھنے کے حق میں نہیں تھے۔ انہیں اپنے لئے ایک بہتر روزگار ڈھونڈنا تھا اور سب سے بڑھ کر شٹازی کی قید میں رہنے کے بعد اپنے اوپر لگے بدنامی کے داغ دھونا تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دیوار برلن کے خاتمے کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر بہت سے شہری اب اپنے بارے میں سرکاری دستاویزات پڑھنے میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔

ہیلموٹ ویپیش جو آج کل اپنی ایک مشاورتی فرم چلاتے ہیں، چودہ سال کی عمرمیں شٹازی کے الزامات کا شکار ہوئے تھے۔ ان پر ان کے سکول کے اساتذہ کے کہنے پر اس لئے مقدمہ چلایا گیا تھا کہ وہ مبینہ طور پر اپنے ایک ہم جماعت سے مشرقی جرمنی سے بھاگ جانے کے بارے میں بات چیت کر رہے تھے۔ ویپیش کا کہنا ہے کہ پہلے جب ان فائلز کے بارے میں، انہوں نے سنا تو ان میں زیادہ دلچسپی نہ لی، لیکن اب وہ چاہیں گے کہ وہ سب کچھ خود بھی پڑھیں جو ان کے بارے میں شٹازی کے خفیہ اہلکاروں نے لکھا تھا۔

اسی طرح 37 سالہ ڈانا ووچاک کا کہنا ہے: ’’کمیونسٹ دور کے خاتمے کے بعد میں نے زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ اس کے لئے مجھے سب سے پہلے ایک ملازمت درکار تھی۔‘‘

20 برس پہلے جب شٹازی کے خفیہ اہلکاروں نے تفتیش کے دوران انہیں اذیت کا نشانہ بنایا تھا، تو ان کا قصور یہ تھا کہ وہ کمیونزم کا پرچار کرنے والے ایک پوسڑ کو پھاڑ دینےکا جرم کر بیٹھی تھیں۔

وہ جرمن شہری جو اپنے متعلق یہ فائلیں پڑھ چکے ہیں اور وہ جو ان فائلوں کو پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، دونوں طرح کے افراد ایک سی سوچ کے حامل ہیں: ’’صرف یہی وہ اہم دستاویزات ہیں، جو ہمیں معاشرے میں دوبارہ اچھا مقام دلا سکتی ہے۔ لوگوں کو دکھا کر ہم یہ ثابت کر سکیں گے کہ ہم پر کس کس طرح کے غلط الزامات لگائے گئے تھے۔‘‘

رپورٹ : عبدالرؤف انجم

ادارت : مقبول ملک