1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’دی وائٹ ٹائیگر‘ کے بعد ’لاسٹ مین اِن ٹاور‘

5 جولائی 2011

بھارت کے نوجوان ادیب اروند اڈیگا کا پہلا ناول ’دی وائٹ ٹائیگر‘ دُنیا بھر میں مشہور ہوا اور اِس کے لیے اڈیگا کو 2008ء میں بکر پرائز بھی ملا تھا۔ اب اڈیگا کا دوسرا ناول ’لاسٹ مَین ان ٹاور‘ شائع ہو رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/11ogG
بھارت کے نوجوان ادیب اروند اڈیگا
بھارتی ادیب اروند اڈیگاتصویر: Akash Shah

پہلے ناول کی طرح 36 سالہ اڈیگا کا تازہ ناول بھی انگریزی زبان ہی میں لکھا گیا ہے اور پہلے ناول کی طرح اس تازہ تخلیق میں بھی اڈیگا نے دُنیا بھر میں ایک ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت کی ساکھ رکھنے والے بھارت کا وہ اصل چہرہ دکھانے کی کوشش کی ہے، جو غربت اور جبر و استحصال سے عبارت ہے۔

یہ تازہ ناول 16 ملین کی آبادی والے شہر ممبئی کی ایک کئی منزلہ عمارت کے گرد گھومتا ہے۔ ایک طاقتور پراپرٹی ڈیلر اس رہائشی ٹاور کو گرا کر اُس کی جگہ ایک نیا لگژری ہوٹل تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ اس رہائشی عمارت کے کچھ پرانے مکین اِس پراپرٹی ڈیلر کی پُر کشش پیشکش کو ٹھکرا کر اُس کے منصوبوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔

16 ملین کی آبادی والے شہر ممبئی کا ایک منظر
16 ملین آبادی والے ممبئی کا ایک منظرتصویر: DW

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے اڈیگا نے کہا، ’یہ ناول بھارت میں جمہوریت کے حوالے سے کچھ بہت ہی بنیادی قسم کے سوالات اٹھاتا ہے۔ مَیں اس جدوجہد میں اُس شخص کا ساتھ دے رہا ہوں، جو پیسے لینے سے انکار کر رہا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ کچھ اور لوگوں کے عزائم کو ناکام بنا رہا ہے‘۔

بھارت میں بڑی بڑی کمپنیاں اور سرکاری محکمے مختلف منصوبوں کے لیے عوام سے زمین حاصل کرنا چاہتے ہیں اور آئے روز مظاہرین بڑے بڑے تعمیراتی اور ترقیاتی منصوبوں کے خلاف آواز بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

موٹر گاڑیاں بنانے والی کمپنی ٹاٹا کو 2008ء میں کسانوں کی طرف سے احتجاجی مظاہروں کے باعث اپنی ایک فیکٹری کے منصوبے ترک کرنا پڑے تھے۔ اسی طرح ملک میں جنوبی کوریا کے فولاد ساز ادارے پوسکو کا ایک منصوبہ چھ سال سے تعطل کا شکار چلا آ رہا ہے۔ یہ منصوبہ بھارت میں سب سے بڑی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ہے۔ گزشتہ مہینے ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران بہت سے کسان مارے گئے تھے، جو نئی دہلی اور آگرہ کو ملانے والی ایک نئی شاہراہ کے لیے زمین کے بدلے زرِ تلافی کا مطالبہ کر رہے تھے۔

اروند اڈیگا، جو اس سے پہلے نئی دہلی میں ٹائم میگزین کے نامہ نگار ہوا کرتے تھے، کہتے ہیں کہ کسی نئی سڑک یا نئے اسٹیڈیم کی تعمیر پر اس طرح کا احتجاج کسی بھی ملک میں ہو سکتا ہے لیکن بھارت میں خاص بات یہ ہے کہ یہ ایک ترقی پذیر ملک ہے اور یہاں لوگوں کی جانب سے زمین کے بدلے دیے جانے والے پیسے کا ٹھکرایا جانا ایک انوکھی بات ہے۔

پہلا ناول ’دی وائٹ ٹائیگر‘ دُنیا بھر میں مشہور ہوا اور اِس کے لیے اڈیگا کو 2008ء میں بکر پرائز بھی ملا
پہلا ناول ’دی وائٹ ٹائیگر‘ دُنیا بھر میں مشہور ہوا اور اِس کے لیے اڈیگا کو 2008ء میں بکر پرائز بھی ملاتصویر: AP

بظاہر ایک چمکتی دمکتی اور ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت بھارت میں غربت، ذات پات کے امتیاز اور ہمسایہ چین کے مقابلے پر معاشی احساس کمتری کو اڈیگا نے جس طرح سے اپنے پہلے ناول میں بے نقاب کیا، اُس پر لاکھوں لوگ اُن کے مداح ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اُن کے ناقدین بھی بے شمار ہیں۔

تاہم اڈیگا کا کہنا یہ ہے کہ وہ آزادی سے یہ ناول بھارت ہی میں لکھ سکتے تھے۔ اڈیگا کہتے ہیں:’’مَیں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ اگر مَیں نے یہ کتاب پاکستان یا سری لنکا یا کسی بھی دوسرے ہمسایہ ملک میں لکھی ہوتی، تو مَیں جیل میں ہوتا۔ مَیں اس بات کے لیے شکر گزار ہوں کہ مَیں بھارت میں رہتا ہوں، جہاں آزاد خیالی ہے اور رواداری ہے۔‘‘

رپورٹ: امجد علی

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں