1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ذہنی صحت کا عالمی دن اور خودکشی کی روک تھام

عنبرین فاطمہ، کراچی
10 اکتوبر 2019

’'ٹارگٹ کلنگ، اسٹریٹ کرائمز، جنسی جرائم، اغوا، زیادتی اور زیادتی کے بعد بچوں کا قتل۔ یہ وہ چند محرکات ہیں جو عوام کی ذہنی صحت کو بربادی کی جانب لے جا رہی ہیں۔‘‘

https://p.dw.com/p/3R0ht
Symbolbild - Ehrenmord - Pakistan
تصویر: picture-alliance/dpa/Keystone USA Falkenberg

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 10 اکتوبر، ذہنی صحت سے متعلق آگاہی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ امسال اس دن کو خودکشی کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات  پر زور دینے کے لیے منایا جا رہا ہے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والی 50 سالہ بتول نامی خاتون ایک نجی کلینک میں شدید ڈپریشن اور خودکشی کی کوشش کے بعد گھر والوں کی جانب سے زبردستی علاج کے لیے ڈیفنس میں قائم ایک کلینک میں گزشتہ پانچ ماہ سے زیر علاج ہیں۔ ان کے مطابق طلاق، جوان بیٹی کی موت اور پھر مالی پریشانیوں نے ان کو زندگی سے اتنا بے زار کر دیا کہ وہ مزید زندہ رہنا نہیں چاہتیں۔

پاکستان میں ذہنی پریشانیوں میں تیزی سے اضافہ

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں تقریباً آٹھ لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں۔ رپورٹ میں جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق خودکشی کی شرح کے حوالے سے 183 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 169 ہے۔ رپورٹ میں تاہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ذہنی صحت سے متعلق پریشانیوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ان نفسیاتی الجھنوں اور مسائل کی لاتعداد وجوہات ہیں۔

Symbolbild - Ehrenmord - Pakistan
خودکشی کی شرح کے حوالے سے 183 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 169 ہے۔تصویر: picture alliance/dpa/B. Roessler

ماہرین نفسیات کے مطابق پاکستان میں خود کشی کا واحد محرک ڈپریشن ہی نہیں ہے۔ ڈاکٹر شازیہ احمد ماہر نفسیات ہیں اور ایک پرائیویٹ کلینک سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈپریشن، شیزوفرینیا، پرسنیلٹی ڈِس آرڈر اور بائی پولر ڈِس آرڈر وہ چند نفسیاتی عوارض ہیں جو اقدامِ خودکُشی کی جانب لے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق، ''ڈپریشن کی نسبت شیزوفرینیا اور بائی پولر ڈِس آرڈرکے نتیجے میں کم افراد خودکُشی کرتے ہیں۔ پھر ہمارے یہاں کئی سماجی وجوہات بھی خودکُشی کی جانب مائل کرتی ہیں مثلاً گھریلو پریشانیاں، سب سے بڑھ کر مالی مشکلات، محبّت میں ناکامی، خاندانی جھگڑے، والدین سے خراب تعلقات، پسند کے خلاف شادی، میاں بیوی کے تعلقات میں خرابی، اسکول، کالج، یونی ورسٹی یا کام کی جگہوں پر ہراسانی، سائبربُلیئنگ، کوئی جسمانی یا ذہنی معذوری وغیرہ۔‘‘

پاکستان میں ذہنی صحت کے بارے میں آگاہی ناکافی

پاکستان ایسوسی ایشن آف مینٹل ہیلتھ کے مطابق پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق تقریبا 15 لاکھ افراد ذہنی امراض کے مسائل سے دو چار ہیں اور ملک میں ذہنی و نفسیاتی عوارض عام ہیں ان میں ڈپریشن اور اینزائٹی سرِفہرست ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں ذہنی صحت کا خیال رکھنے اور دماغی بیماریوں کے بارے میں آگاہی کی شدید کمی ہے۔

پاکستان ایسوسی ایشن آف مینٹل ہیلتھ کے صدر ڈاکٹر ہارون احمد کے مطابق اگر صرف ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی ہی بات کی جائے تو یہاں کا تناؤ سے بھرپور ماحول انفرادی اور سماجی سطح پر نہایت مہلک اثرات مرتب کر رہا ہے اور نتیجتاً لوگوں کے برتاو میں تبدیلی نمایاں ہو رہی ہے، ''ٹارگٹ کلنگ، اسٹریٹ کرائمز، جنسی جرائم، اغوا، زیادتی اور زیادتی کے بعد بچوں کا قتل۔ یہ وہ چند محرکات ہیں جو عوام کی ذہنی صحت کو بربادی کی جانب لے جا رہی ہیں۔‘‘

نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے لیے صحت کے بجٹ کا محض 0.4% فیصد

جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر سے وابستہ ماہرِ نفسیات، پروفیسر اقبال آفریدی کے مطابق پاکستان کی 34 فیصد آبادی ڈپریشن اور اینزائٹی یا گھبراہٹ کا شکار ہے: ''نفسیاتی امراض سے متعلق معاشرے میں ایک خاص اسٹیگما یا بدنامی کے باعث لوگ علاج سے عموماً گھبراتے ہیں تاہم اب کچھ تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے اور لوگ نفسیاتی مسائل کے علاج کے لیے ماہرین سے رجوع کر رہے ہیں مگر ابھی بھی ناخواندہ افراد میں ماہرین سے رجوع کرنے کی شرح کم ہے۔‘‘

Pakistan Fall Zainab Ansari - Vater zeigt Bild seiner ermordeten Tochter
''ٹارگٹ کلنگ، اسٹریٹ کرائمز، جنسی جرائم، اغوا، زیادتی اور زیادتی کے بعد بچوں کا قتل۔ یہ وہ چند محرکات ہیں جو عوام کی ذہنی صحت کو بربادی کی جانب لے جا رہی ہیں۔‘‘تصویر: picture-alliance/AP Photo/B.K. Bangash

ڈاکٹر اقبال آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ افسوس اس بات کا ہے کہ نفسیاتی بیماریوں کو حکومت توجہ نہیں دیتی اور ان بیماریوں کے علاج پر صحت کے بجٹ کا صرف 0.4 فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ ان کی تجویز ہے کہ 'نفسیاتی امراض کے علاج کے لیے صحت کے بجٹ کا کم از کم 25 فیصد مختص کیا جانا چاہیے کیونکہ نفسیاتی مسائل سے متاثرہ افراد کی تعداد دیگر مریضوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے‘۔

 

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔