1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رضاکارانہ طور واپس جانے والے مہاجرین کے لیے اضافی مالی مدد

عابد حسین
1 فروری 2017

جرمن حکومت ایسے مہاجرین کی زیادہ مالی مدد کرے گی جو خود سے واپس جانے پر رضامند ہوں گے۔ اس خصوصی حکومتی پروگرام کا آغاز آج بدھ، پہلی فروری سے ہو رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2Wlhn
Griechenland Mazedonien Flüchtlinge bei Idomeni
تصویر: Getty Images/M. Cardy

جرمن وزارتِ داخلہ کے اعلان کے مطابق برلن حکومت ایسے مہاجرین کو معقول رقم دے گی، جو رضاکارانہ بنیاد پر واپس اپنے وطن جانے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ اس مقصد کے لیے اضافی رقم بھی مختص کر دی گئی ہے۔ جرمن وزارتِ داخلہ کے مطابق اِس پروگرام کا نام ’لانچ ایڈ پلس‘ رکھا گیا ہے واپس جانے والے مہاجرین کے لیے جرمن حکومت کا خصوصی امداد کا یہ پروگرام آج پہلی فروری سے شروع ہو رہا ہے۔

اِس خصوصی پروگرام کے لیے میرکل حکومت نے اضافی چالیس ملین یورو (43.2 ملین ڈالر) مختص کیے ہیں۔ وزارت داخلہ نے اس پروگرام کو شروع کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ اس سے مہاجرین کو ترغیب حاصل ہو سکے گی کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے وطن جانے پر تیار ہو جائیں۔ اس امدادی رقم کے حصول میں وہ بھی شامل ہو سکتے ہیں جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں متعلقہ حکام مسترد کر چکے ہیں۔

Deutschland Bayern Flüchtlingscamp
یاویریا میں قائم ایک مہاجر کیمپتصویر: Ali

خصوصی پروگرام کے تحت بارہ برس سے زائد عمر کے کسی بھی مہاجر نے سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی ہے اور وہ واپس جانا چاہتا ہے تو برلن حکومت اُسے بارہ سو یورو دے گی اور اگر کسی کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی ہے اور وہ اپیل کرنے کے بجائے واپس اپنے وطن جانے کا خواہشمند ہے تو اُسے آٹھ سو یورو  دیے جائیں گے۔

اس تناظر میں جرمنی کے وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر کا کہنا ہے کہ جو کوئی مہاجر یہ خیال کرتا ہے کہ جرمنی میں اُس کے لیے کوئی مستقبل نہیں، اُس کے لیے ملک بدری سے رضاکارانہ طور پر اپنے وطن کو واپسی ایک بہتر آپشن ہے۔ اس سکیم سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی حوصلہ شکنی کے تناظر میں بعض ملکوں کے مہاجرین اِس اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ وزارت داخلہ کے مطابق اِس میں خاص طور پر مغربی بلقان خطے کے ممالک شامل ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ جرمن حکومت کو ایسے مہاجرین کی ملک بدری پر سخت تنقید کا بھی سامنا ہے، جہاں مسلح تنازعات کا سلسلہ ابھی جاری ہے، اس کی مثال افغانستان دی جاتی ہے۔ دوسری جانب حکومت پر یہ دباؤ بھی ہے کہ وہ سیاسی پناہ کے متلاشی ایسے مہاجرین کی تعداد میں واضع کمی لائے۔