1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رواں برس پناہ کی کم درخواستیں موصول ہوئیں، جرمن وزارت داخلہ

17 دسمبر 2018

جرمن وزارت داخلہ کو توقع ہے کہ رواں برس کے اختتام تک پناہ کی متلاشیوں کی طرف سے دائر کردہ نئی درخواستوں کی تعداد تقریبا ایک لاکھ چھیاسٹھ ہزار ہو جائے گی۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں پناہ کی ان درخواستوں کی تعداد کم ہے۔

https://p.dw.com/p/3AFi3
Migration - Syrische Schwimmerin Yursa Mardini bei der PK zu Integration durch Sport in Berlin
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman

خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے جرمن حکومت کے حوالے سے بتایا ہے کہ رواں سال کے اختتام تک مہاجرین اور پناہ کے متلاشی افراد کی طرف سے دائر کی جانے والی پناہ کی درخواستوں کی تعداد قریب ایک لاکھ چھیاسٹھ ہزار ہو جائے گی۔ جرمن وزارت داخلہ کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ سن دو ہزار سترہ کے مقابلے میں رواں برس کے دوران جمع کرائی جانے والی ان درخواستوں کی تعداد کم ہو گی۔

جرمن روزنامہ بلڈ نے وزارت داخلہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ سن دو ہزار سترہ کے دوران جرمنی میں مجموعی طور پر جمع کرائی گئی پناہ کی درخواستوں کی تعداد ایک لاکھ اٹھانوے ہزار تین سو سترہ تھی۔ ان میں سے ایسے درجنوں مہاجرین کو ملک بدر بھی کیا جا چکا ہے، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو گئی تھیں۔ واپس اپنے وطن روانہ کیے جانے والے ان مہاجرین میں افغان اور پاکستانی باشندے بھی شامل تھے۔

جرمنی کی وسیع تر مخلوط حکومت میں اتفاق رائے ہوا تھا کہ جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی سالانہ تعداد ایک لاکھ اسّی ہزار تا دو لاکھ بیس ہزار ہو گی۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ حکومتی فیصلہ آئندہ برس بھی تبدیل نہیں ہو گا۔۔

یاد رہے کہ مہاجرین کے بحران کی وجہ سے جرمن حکومت کو شدید دباؤ کا سامنا ہے اور اس وجہ سے انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کی عوامی مقبولیت میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

جرمنی میں کثیر الاشاعتی روزنامے بلڈ کے مطابق سن دو ہزار اٹھارہ کے دوران پناہ کی متلاشی رجسٹر افراد میں تیس ہزار کے قریب بچے بھی ہیں، جن کی عمریں ایک برس سے کم ہیں۔ بلٹ کے مطابق ان بچوں کی پیدائش جرمنی میں ہی ہوئی ہے۔ جرمن سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں یورپ کے اقتصادی طور پر اس سب سے مضبوط ملک میں 1.8 ملین سے زائد افراد نے پناہ کے لیے درخواستیں دائر کی ہیں۔

ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں