1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روزگار کے بیس ارب مواقع خطرے میں

dw staff25 اکتوبر 2008

موجودہ مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے امدادی پلان کی منظوری کے بعد یورپی حکومتوں پر بے روزگاری کی شرح پر قابو پانے کے سلسلے میں دباؤ میں مسلسل اضاقہ ہوتا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/FgaD
بین الاقوامی ادارہ برائے محنت کا علامتی نشانتصویر: AP GraphicsBank

ماہرین موجودہ صورتحال کا موازنہ سن انیس سو تیس کے گریٹ ڈپریشن یا ما لیاتی بحران سے کر رہے ہیں جس میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی اقتصادیات کو سخت نقصان پہنچا تھا۔ بین الاقوامی ادارہ برائے محنت یا ILO کے مطابق اگلے سال کے آخر تک پوری دنیا میں روزگار کے بیس ارب مواقع ختم ہوجائیں گےاور اس کا اثر تمام یورپی ممالک پر بھی پڑے گا۔ حتا کہ یورپ کی سب سے مضبوط ترین سمجھی جانے والی معیشت جرمنی میں بھی حالات کچھ مختلف نہ ہوں گے۔ ماہر اقتصادیات اس کی ایک بڑی وجہ موجودہ عالمی مالیاتی بحران کو بھی ٹھہراتے ہیں۔ موجودہ مالیاتی بحران کے پیش نظر خسارے میں جاتی ہوئی کئی بڑی کمپنیوں نے ہزاروں کی تعداد میں ملازمتوں میں کمی کا اعلان بھی کیا ہے۔ ان حالات کے پیش نظر یورپی حکومتوں پر بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانے کے سلسلے میں عوامی سطح پر دباؤ روز بروزبڑھتا جا رہا ہے۔ بیل آؤٹ پلان یا حکومتی امدادی پیکج کے بعد عام آدمی کا یہ مطالبہ ہے کہ حکومت ان کے مسائل کا حل بھی ڈھونڈ نکالے۔

Tag gegen Kinderarbeit - Kind in Aluminimumfabrik in Bangladesch
پندرہ سالہ بنگلہ دیشی لڑکا امین ڈھاکہ میں ایلومینیم فیکٹری میں کام کرتے ہوئے۔تصویر: picture-alliance/Bildfunk

پاکستان کے معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کہتے ہیں :’’سرمایہ دارانہ نظام اور سیاسی قوتوں کو کو ئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ بے روزگاری اور غربت میں اضافہ کریں۔ حکومتوں نے بینکوں کو بچانے کے لیے امدادی پیکج دے دئیے اورعام آدمی کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دی۔ اس سےیورپ اور امریکہ میں عام آدمی اور حکومت کے مابین عدم اعتماد کی فضا قائم ہوگئی ہے۔ ‘‘

یورپی کمیشن کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جولائی میں یورپی یونین میں موجود ستائیس ممالک میں سولہ اعشاریہ تین ملین افراد بے روزگار تھے جن میں سے گیارہ اعشاریہ چار ملین یورو زون میں تھے۔ جرمنی میں بے روزگاری کی شرح رواں سال اگست میں سات اعشاریہ تین فی صد تھی۔ جرمنی کی مخلوط حکمران جماعت کرسچئن ڈیکموکریٹک یونین یا سی ڈی یو کو اس بات کا ڈر ہے کہ اگر روزگار کے مواقع میں اسی طرح کم ہوتے رہےتو ممکن ہے کہ رائے دہنندگان اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں انہیں ووٹ نہیں دی گے۔ سب سے زیادہ بے روزگاری اسپین اور سلو واکیہ میں ہے جہاں بے روزگازی کی شرح گیارہ فی صد اور دس اعشاریہ تین فی صد ہے۔ بے روزگاری کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے یورپی حکومتوں کو کیا اقدامات کرنے چاہیے اس حوالے سے ڈاکٹر شاہد صدیقی کہتے ہیں :’’ اگر اس موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے ڈھانچے میں تبدیلیاں نہ لائی گئیں تو خطرہ ہے کہ یہ بحران بڑھتا چلا جائے گا ۔ سن دو ہزار آٹھ کے نوبل امن انعام کے حقدار اور فن لینڈ کے سابق صدر مارٹی آہتی ساری کا کہنا ہے کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ، بے روزگاری کا ہے۔