1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روسی اور اسرائیلی فوج کے درمیان جھڑپیں نہیں چاہتے، نیتن یاہو

عاطف توقیر21 ستمبر 2015

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ان کے حالیہ دورہ ماسکو کا مقصد مشرق وسطیٰ میں روسی اور اسرائیلی فوج کے درمیان ممکنہ جھڑپوں سے اجتناب تھا۔

https://p.dw.com/p/1GZre
تصویر: Reuters/RIA Novosti/M. Klimentyev

پیر کے دن اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے روسی صدر ولادیمر پوٹن سے ملاقات کے بعد کہاکہ روس سے شامی تنازعے اور اس کی وجہ سے اسرائیلی سلامتی کو لاحق خطرات کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی ہے۔ اس موقع پر صدر پوٹن نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں روسی اقدامات ’ذمہ دارانہ‘ ہوں گے۔

اسرائیلی وزیراعظم نے پوٹن کو بتایا کہ شام اور ایران اسرائیل کے خلاف گولان کے پہاڑی سلسلے پر ’دوسرا محاذ‘ کھولنا چاہتے ہیں۔

یہ بات اہم ہے کہ سن 1960ء میں اسرائیل نے شام کے ساتھ جنگ کے دوران گولان کے پہاڑی سلسلے کا ایک بڑا علاقے اپنے قبضے میں کر لیا تھا۔ روسی خبر رساں ادارے انٹرفیکس کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نے کہا، ’ایران شامی فوج کے ساتھ مل کر گولان ہائٹس پر اسرائیل کے خلاف دوسرا محاذ کھولنا چاہتا ہے۔‘

Syrien Russische Flugzeuge in Latakia gelandet ARCHIV
روس شام کی عسکری امداد میں مصروف ہےتصویر: picture-alliance/RIA Novosti/A. Kudenko

اس کے جواب میں پوٹن نے کہا کہ شامی فوج اس وقت اپنے ملک کی حکومت بچانے کی تگ و دو میں ہے اور وہ اس وقت اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ اسرائیل کے خلاف کوئی محاذ کھول دے۔ ماسکو میں مذاکرات کے دوران توقع کی جا رہی تھی کہ شامی حکومت کے لیے روسی عسکری امداد توجہ کا مرکز رہے گی۔ صدر پوٹن کا اس بات چیت کے دوران کہنا تھا، ’ہم جانتے ہیں کہ شامی فوج اور پورا ملک شام اس وقت ایک ایسی حالت سے دوچار ہے کہ وہ دوسرا کوئی محاذ نہیں کھول سکتا۔‘

گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ نیتن یاہو صدر پوٹن سے ملاقات کے دوران یہ واضح کریں گے کہ شام کے لیے عسکری امداد سے یہودی ریاست کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

اسرائیل کو خدشات ہیں کہ ایسے خطرناک ہتھیار حزب اللہ اور دیگر عسکری گروہوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں، جو پہلے ہی اسرائیل کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔

نیتن یاہو کے اس دورہ روس کے دوران اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف اور ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ بھی ان کے ہمراہ ہیں۔ روسی شامی صدر بشار الاسد کا ایک کلیدی اتحادی ہے اور سن 2011ء سے جاری شامی تنازعے کے دوران شام کے حوالے سے سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی متعدد قراردادوں کو ویٹو کر چکا ہے۔

علاقائی طاقتیں بشمول اسرائیل اور سعودی عرب مطالبہ کر چکی ہیں کہ بشارالاسد اپنے عہدے سے ہٹ جائیں تاکہ شام میں قیام امن کا عمل آگے بڑھ سکے۔ تاہم روس کی جانب سے بشارالاسد حکومت کی عسکری امداد کے اعلان کے بعد اب بشارالاسد مخالفین کو یہ خدشات لاحق ہیں کہ شامی تنازعے طول پکڑ سکتا ہے اور اس کا سیاسی حل مزید مشکل بن سکتا ہے۔