1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روسی ميڈيا ميں مہاجرين سے منسلک مسائل پر خاص توجہ

عاصم سليم24 جنوری 2016

روسی ذرائع ابلاغ پر جرمنی ميں ريکارڈ تعداد ميں مہاجرين کی آمد کے سبب نمودار ہونے والے انتظامی مسائل پر بڑھا چڑھا کر توجہ دی جا رہی ہے۔ ناقدين کا کہنا ہے کہ يہ روس ميں داخلی مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔

https://p.dw.com/p/1Hj8i
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm

روسی دارالحکومت ماسکو کے ايک اخبار (Sovershenno Sekretno) نے گزشتہ ہفتے مندرجہ ذيل عنوان تلے ايک رپورٹ شائع کی، ’روسی نسل کے افراد کا جرمنی ميں مہاجر کيمپ پر حملہ۔‘ رپورٹ ميں دعویٰ کيا گيا تھا کہ پناہ گزينوں کے خلاف جرمن حکام کی بے بسی کے نتيجے ميں تقريباً چار سو روسی نسل کے افراد نے معاملات اپنے ہاتھ ميں ليتے ہوئے جرمنی جنوب مغربی شہر برشزال ميں ايک مہاجر کيمپ پر دھاوا بول ديا۔

جرمن نيوز ايجنسی ڈی پی اے کی برلن اور ماسکو سے موصولہ رپورٹ کے مطابق اس واقعے ميں حقائق کو کافی زيادہ بڑھا چڑھا کر پيش کيا گيا ہے۔ پوليس کے مطابق سولہ جنوری کو کارلسڈورف نوئٹہارڈ کے شہر ميں چار افراد نے مہاجرين کے ايک کيمپ کی کھڑکی توڑ دی تھی، جس سے کُل تين سو يورو کا مالی نقصان ہوا تھا۔

پچاس فيصد لوگ پناہ گزينوں کی آمد سے خوف زدہ نہيں
پچاس فيصد لوگ پناہ گزينوں کی آمد سے خوف زدہ نہيں

روسی ذرائع ابلاغ پر اس قسم کی رپورٹس عام ہيں۔ نئے سال کی آمد کے موقع پر جرمن شہر کولون ميں خواتين کو جنسی طور پر ہراساں کيے جانے کے واقعے کے بعد جرمنی کو مہاجرين کے بحران کے تناظر ميں ’بريک ڈاؤن‘ کے دہانے پر دکھايا جا رہا ہے۔ نشرياتی ادارے Rossiya24 کا دعویٰ ہے کہ ’کولون حملوں نے جرمن معاشرے کو تقسيم کر کے رکھ ديا ہے۔‘ مزيد کہا گيا ہے کہ بہت کم لوگ ایسا سمجھتے ہيں کہ مہاجرين سے کوئی خطرہ لاحق نہيں۔

ايسا معلوم ہوتا ہے کہ کريملن کے زير کنٹرول روسی ميڈيا اس مبينہ پروپيگنڈا کے ذريعے جو تاثر پيدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، وہ يہی ہے کہ ’يورپ غير ملکيوں کے قبضے کے بعد سے کمزور اور غير محفوظ ہے۔‘ قوم پرست سياست دان ولاديمير شرينوسکی نے ايک مقامی اخبار سے بات چيت کرتے ہوئے کہا، ’’يورپ نئی اميگريشن بند کرے، بصورت ديگر يہ خطہ خطرے ميں ہے۔‘‘

اس کے برعکس روسی صدر بظاہر بڑے اچھے دکھائی ديتے ہيں۔ انہيں ديکھ کر تو ايسا معلوم ہی نہيں ہوتا کہ روبل کی قدر ميں مسلسل کمی ہو رہی ہے، لوگوں کی آمدنياں گھٹ رہی ہيں اور ان کا ملک شام اور يوکرائن کی جنگوں کا حصہ ہے، گو کہ يوکرائن ميں ملوث ہونے کے معاملے کی ماسکو حکومت بارہا ترديد کرتی آئی ہے۔

مہاجرين کی آمد جاری، يورپی سطح پر مخالفت بھی بڑھتی ہوئی

يہ امر اہم ہے کہ بڑے روسی ٹيلی وژن چينل نہ صرف روس ميں بلکہ بين الاقوامی سطح پر بھی کافی ديکھے جاتے ہيں۔ جرمنی ميں مقيم سابقہ سويت يونين نژاد تقريباً 2.3 ملين روسيوں ميں بھی يہ چينل کافی مقبول ہيں۔ ان ٹی وی چينلوں پر نشر کی جانے والی چند رپورٹيں ايسی لگتی ہيں کہ جيسے ان کا مقصد مبينہ طور پر روسی نسل والوں ميں نفرت اور تشدد اجاگر کرنا ہے۔ مثال کے طور پر يہ خبر کہ جرمن دارالحکومت برلن ميں ايک تيرہ سالہ بچی پچھلے دنوں گم ہو گئی۔ جرمن پوليس کے بارہا اصرار کے باوجود کہ انہيں کسی اغواء اور جنسی زيادتی کے واقعے کی اطلاع نہيں، سب سے معروف روسی پروگرام ميں يہ دعویٰ کيا گيا کہ بچی کو پناہ گزينوں نے اغواء کر کے جنسی تشدد کا نشانہ بنايا۔ روسی ميڈيا ميں يہ دعویٰ بھی کيا گيا ہے کہ جرمن پوليس کو پناہ گزينوں کی جانب سے کيے جانے والے جرائم پر پردہ ڈالنے کے احکامات ہيں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں