1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’روس اسد کے اقتدار میں رہنے پر بضد نہیں‘

عابد حسین14 اگست 2015

روس کے دورے کے دوران شامی اپوزیشن کے قومی اتحاد کے سربراہ نے روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف سے ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد شامی لیڈر کا کہنا تھا کہ روس اسد کے اقتدار میں رہنے پر مُصر نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/1GFgw
شامی اپوزیشن کے قومی اتحاد (سیریئن نیشنل کولیشن ) کے صدر خالد خوجہتصویر: Reuters/M. Dabbous

روس کے دارالحکومت ماسکو میں روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف سے ملاقات کے ایک روز بعد شامی اپوزیشن کے قومی اتحاد (سیریئن نیشنل کولیشن )کے صدر خالد خوجہ نے آج جمعہ کے روز کہا کہ روسی قیادت خود کو بشار الاسد کے ساتھ نہیں سمجھتی اور شام کی علاقائی سالمیت اور اس کو تباہی سے بچانے کی ضرورت پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ شام کے مرکزی اپوزیشن گروپ کے رہنما نے مزید کہا ہے کہ روس، شامی صدر بشار الاسد کو اقتدار میں رکھنے کے لیے پابند نہیں ہے۔

خالد خوجہ کا بیان بظاہر روسی پالیسی میں تبدیلی کے عکاس کے طور پر بین الاقوامی حلقوں میں دیکھا جا رہا ہے۔ دوسری جانب ماسکو حکام نے خالد خوجہ کے بیان کے حوالے سے بھی ابھی تک کوئی تردیدی یا تصدیقی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ خالد خوجہ کا بیان یہ بھی ظاہر کر سکتا ہے کہ روس شامی مسئلے اور مسلح تنازعے کے حل کے لیے اپوزیشن کی تائید اور حمایت کا متمنی ہے۔

Moskau PK Saudischer und russischer Außenminister
سعودی وزیر خارجہ عدل الجُبیر اپنے روسی ہم منصب سیرگئی لاوروف کے ہمراہ ماسکو میںتصویر: picture-alliance/dpa/TASS/S. Krasilnikov

یہ امر اہم ہے کہ رواں ہفتے کے اوائل میں لاوروف کی سعودی وزیر خارجہ عدل الجُبیر کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں شامی صدر بشار الاسد کے مستقبل بارے دونوں ملکوں کے نکتہ نظر میں واضح اختلاف نظر آیا تھا۔ سعودی سفیر کی ماسکو موجودگی کے دوران روسی حکومت نے کہا تھا کہ دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جاری زمینی مہم میں اسد حکومت کی فوج کو بھی شامل کیا جائے۔ عدل الجُبیر نے اِس روسی خواہش کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ شامی معاملات میں بشار الاسد کا کوئی کردار موجود نہیں ہے۔

خالد خوجہ نے یہ بھی واضح کیا کہ روس اِس امر پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے کہ شام کی جغرافیائی سلامتی کو منہدم ہونے سے بچایا جائے کیونکہ مزید جنگی حالات کی صورت میں ریاستی حکومتی ڈھانچے کے منہدم ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ خالد خوجہ کے مطابق انہوں نے روسی حکومت کو شامی اداروں کو محفوظ بنانے کی پیشکش بھی کی تھی۔ چند ہفتے قبل شامی صدر اسد نے بھی جنگ کے دباؤ کو محسوس کرتے ہوئے جہاں افرادئِ قوت کی کمی کا رونا رویا تھا وہاں انہوں نے صرف اہم مقامات کے دفاع پر عسکری توجہ مرکوز کرنے کا اعلان کیا تھا۔ شامی مسلح تنازعے کے خاتمے کے حوالے سے روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان کے ساتھ بھی رواں مہینے کے شروع میں ملاقات کی تھی۔