1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس، امریکا امن منصوبے پر شامی باغیوں کو تحفظات

عاطف توقیر23 فروری 2016

امریکا اور روس کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہ شام میں فائربندی کے حوالے سے ایک منصوبے پر رضامند ہو گئے ہیں، جو ہفتے کے روز سے نافذ العمل ہو جائے گا، تاہم شامی باغیوں نے اس منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1I0Ek
Türkei Wladimir Putin und Barack Obama in Antalya
تصویر: picture alliance/AP Images/K. Ozer

باغیوں کی جانب سے فوری ردعمل میں کہا گیا ہے کہ اس منصوبے میں کئی طرح کے نقائص ہیں، جن کی وجہ سے اس منصوبے کی ناکامی کا خطرہ ہے۔

پیر 22 فروری کو امریکا اور روس کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کو اقوام متحدہ کے ایک ترجمان نے شام میں مستحکم فائربندی کی جانب پہلا اہم قدم قرار دیا ہے۔ ترجمان کے مطابق ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان سخت سفارتی کوششوں کی وجہ سے طے پانے والا یہ معاہدہ شام میں گزشتہ پانچ برس سے جاری اس مسلح تنازعے کے خاتمے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اس تنازعے میں اب تک ڈھائی لاکھ سے زائد انسان مارے گئے ہیں۔

امریکا صدر باراک اوباما اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ٹیلی فون پر بات چیت میں اس معاہدے پر رضامندی کے بعد کہا کہ یہ منصوبہ شام کی صورت حال میں غیرمعمولی رفتار سے تبدیلی پیدا کر سکتا ہے۔

Syrien Aleppo Rauch Ruinen Menschen
شامی تنازعے میں ڈھائی لاکھ سے زائد انسان لقمہء اجل بن چکے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/I. Pitalev

اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک شام میں زمین پر موجود عسکری حامیوں کو اس معاہدے کی پابندی پر مائل کریں گے۔ تاہم شامی تنازعے پر نگاہ رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق پیر کے روز بھی شام میں لڑاکا طیاروں کے حملوں اور زمینی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔

اس منصوبے کے تحت شامی فوجی اور اس کے اتحادیوں سمیت حکومت مخالف باغیوں کو بھی ’ذاتی دفاع‘ کے لیے جائز طاقت کے استعمال کا حق تفویض کیا گیا ہے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اس نکتے کے تحت شام میں مسلح تنازعے کا راستہ کھلا رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس منصوبے میں اسلامک اسٹیٹ، النصرہ فرنٹ اور ایسے دیگر مسلم عسکریت پسند گروپوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے، جو اقوام متحدہ کی دہشت گردی کی فہرست پر موجود ہیں۔

تاہم شامی باغیوں کے سیاسی دفتر کے سربراہ بشار الزوبی کے مطابق اس طرح شامی صدر بشارالاسد اور روسی فورسز کو یہ راستہ فراہم کر دیا گیا ہے کہ وہ حکومت مخالفین کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھیں، کیوں کہ باغیوں کے زیر قبضہ متعدد علاقوں کے بعض حصوں میں مسلم شدت پسند باغیوں کا کنٹرول بھی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کئی علاقوں میں النصرہ اور اعتدال پسند شامی باغیوں کے زیر قبضہ علاقے ملے ہوئے ہیں اور اگر ایسی صورت حال میں عسکری کارروائیاں کی گئیں، تو یہ معاہدہ ختم ہو سکتا ہے۔

ادھر شامی صدر بشارالاسد نے ایک حکم نامے کے ذریعے ملک میں 13 اپریل کو پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سے قبل شام میں اس طرز کے انتخابات کا انعقاد مئی 2012 میں ہوا تھا۔