1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس اورجورجیا کےدرمیان مسلح کشیدگی میں اضافہ : اپ ڈیٹ

12 اگست 2008

جورجیا سے علیحگی اختیار کرنےوالےعلاقے شمالی اوسیتیا کےدارالحکومت میں جورجیا کی فوجوں کے داخل ہونے سے سارے علاقے میں عدم استحکام کی فضا پیدا کردی ہے۔ اِس تناظر میں امن کوششوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

https://p.dw.com/p/Ev8P
موجودہ تنازعے کے باعث جورجیا سےعلیحدگی اختیار کرنے والے شمالی اوسیتا کے دارالحکومت سے لوگ انخلا پر مجبور ہیںتصویر: AP

تازہ اطلاعات کے مطابق روس اورجورجیا کے درمیان جاری مسلح تنازعہ وسعت اختیا رکر جا رہا ہے۔ ایسی خبریں بھی ہیں کہ روسی افواج جورجیا کے داراحکومت کی جانب روانہ ہیں۔ روس نے ایک دوسر ے علیحدگی اختیار کرنے والے علاقے اب خازیہ کی جورجیا کے ساتھ جڑی سرحد پر بھی مزید فوجیں تعینات کردی ہیں۔ اِس حوالے سے جورجیا نے سلامتی کونسل میں ایک اور اپیل جمع کروائی ہے جس میںکہا گیا ہے کہ جورجیا کی سرزمین پر روس کی پیش قدمی کرتی فوجوں کو روکا جائے۔

Konflikt in Georgien
شمالی اوسیتیا کے دارالحکومت Tskhinvali میں جورجیا کا فوجی ٹینکتصویر: AP

روسی افواج کی کارروائی کے تناظر میں جورجیا نے روسی فوج کی آمد کے بعد بین الاقوامی برادری سے مدد طلب کرنے کا اعلان کرنے کےعلاوہ علیحدگی اختیار کرنے والے شمالی اوسیتیا کے علاقے سے فوج بھی واپس طلب کر لی ہے۔ دوسری طرف روسی فوج نے شمالی اوسیتیا میں داخل ہونے والی جورجیا کے فوج کے تعاقب میں یورپی حکومتوں کی اپیلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جورجیا کے علاقے میں داخل ہو گئیں ہیں۔

Georgische Präsident Mikhail Saakashvili und Aussenminister Frank-Walter Steinmeier
جورجیا کے صدر Mikhail Saakashvili ( دائیں جانب) جرمن وزیر خارجہ کےہمراہتصویر: AP

جورجیا کے صدر Mikheil Saakashvili کے مطابق روسی فوج نے اُن کے ملک کے مشرق و مغرب کے درمیان قائم مرکزی راسطے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ جورجیا کے صدر نے یہ بھی کہا ہے کہ روسی فوج کی کارروائی کے آگے اُن کا ملک سرنگوں نہیں ہو گا۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ جورجیا کےسرحدی قصبے گوری کے باہر تک روسی فوجیں پہنچ چکی ہیں اور اُن کی منزل طبلیسی ہو سکتی ہے۔

شمالی اوسیتیا میں مسلح تنازعہ گزشتہ جمعرات کو شروع ہوا جب جورجیا کی فوجیں علیحدگی اختیار کرنے والے علاقے کے صدر مقام میں داخل ہوئیں تھیں۔ جورجیا کی فوجوں کےخلاف روس کی طرف سے بھرپور جوابی حملہ اتوار کو شروع کیا گیا۔ جس سے جورجیا کی فوج کا حوصلہ ختم ہو گیا۔ روس کے مطابق سولہ سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

یورپی یونین کے صدر ملک فرانس کے سربراہ نکولس سارکوزی موجودہ صورتحال میں بہتری لانے کی خاطر آج کسی وقت طبلیسی پہنچ رہے ہیں۔ اِس سے پہلےکہا گیا تھا کہ سارکوزی روسی صدر میڈویڈیف سے ملاقات کرنےماسکو جائیں گے۔ فرانسیسی صدر کے دورے سے پہلے یورپی یونین کی امن کوششوں کے سلسلے میں فرانسیسی وزیر خارجہ Bernard Kouchner دونوں ملکوں کا دورہ اتوار اور پیر کو مکمل کر چکے ہیں ۔

جورجیا اور روس کے درمیان جاری مسلح تنازعے پر امریکی صدر جورج ڈبلیو بُش کی جانب سے بھی پالیسی بیان جاری کردیا گیا ہے اور جورجیا سے متعلق روسی پالیسی میں تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔ صدر بُش کا کہنا ہے کہ روسی فوجی عزائم ظاہر کرتےہیں کہ وہ طبلیسی کی حکومت کو گرانا چاہتے ہیں۔امریکہ کی جانب سے روسی فوجی ایکشن کی مذمت کے ساتھ ساتھ جورجیا کی ہنگامی امداد کا اعلان بھی کیا۔ ایک اعلیٰ امریکی سفارت کار بھی جورجیا کےدارالحکومت طبلیسی روانہ کیا گیا تھا۔ صدارتی امیدواروں باراک اوبامہ اور جان میک کین کی جانب سے بھی روسی ایکشن پر شخت بیانات سامنے آئےہیں۔

عالمی یینک کی جانب سے کہا گیا ہے کہ نازک دور کے باوجود جورجیا کی اقتصادیات مستقبل میں ترقی کر یں گی۔ اِس مسلح تنازعے کی وجہ سے روس کی سٹاک مارکیٹس میں مندی کا زجحان دیکھا گیا ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل میں بھی سمجھوتے کی قرارداد پیش کرنے کا امکان ہے۔ فوری جنگ بندی کی قرارداد کو فرانس حتمی شکل دے رہا ہے۔ یورپی ملکوں کی خواہش ہے کہ جنگ بندی کی قرارداد منگل کو پیش کردی جائے۔ سللامتی کونسل کا روس مستقل رکن ہے اور اُس کو قرارداد کی مخالفت کرتےہوئے اِسے ویٹو کرنےکا حق بھی حاصل ہے۔

یوکرائن، پولینڈ سمیت مشرقی یورپ کے پانچ ملکوں کے سربراہ اظہار یک جہتی کے سلسلے میں جورجیا کا دورہ شروع کرنے والے ہیں۔