1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس نے جنوبی اوسیتیا اور ابخازہ کو تسلیم کر لیا

Adnan Ishaq26 اگست 2008

شدید ترعالمی دباؤ کے باوجود روس نے جارجیا سے علیحدہ ہوئے علاقوں جنوبی اوسیتیا اور ابخازیہ کو آزاد ریاست کے طورپر تسلیم کر لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/F5Nh
روس کے صدر دمتیرمیدوی اےدیفتصویر: picture-alliance/ dpa

یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں، لیکن انسانی زندگیوں کو بچانے کے لئے ایسا کرنا اتنہائی ضروری تھا۔ ان الفاظ کے ساتھ روسی صدر دمتری مید وی ایدف نے جنوبی اوسیتیا اور ابخازیہ کو آزاد ریستوں کے طورپرتسلیم کرتے ہوئے صدارتی فرمان پر دستخط کردئیے۔ اس موقع پرانہوں نے کہا کہ روس کی طرح دیگرممالک کو بھی ان دونوں ریاستوں کو آزاد ریستوں کے طور پرتسلیم کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ جنوبی اوسیتیا اورابخازیہ کےعوام کی خواہشات کو مدنظررکھتے ہوئے کیا گیا اوریہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے۔ روسی پارلیمان پہلے ہی جارجیا کےعلیحدگی پسند ان علاقوں کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ایک قرارداد منظورکرچکی ہے۔

Russische Checkpoints erschweren Hilfseinsätze
تصویر: AP

ماسکو حکومت کو اپنے اس اعلان کے بعد عالمی برادری کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ جارجیا نے اس فیصلےپر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے غیر قانونی قرار دیا۔ فرانس نے جنوبی اوسیتیا اورابخازہ کو آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کرنے کہ روسی اقدام کو افسوسناک قراردیا ہے۔ فرانس کی وزرات خارجہ کے ترجمان Eric Chevallier نے کہا کہ فرانس جارجیا کی علاقائی سالمیت کے حق میں ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے کہا کہ روس کے اعلان پر انہیں بہت مایوسی ہوئی ہے اورایسا کر کے روس نے سلامتی کونسل کی قرارداردوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ روس کا ان متنازعہ ریاستوں کو تسلیم کرنے کا اقدام قابل مذمت ہے اورسلامتی کونسل کی کئی قراردادوں سے یہ بات صاف ظاہر ہے جنوبی اوسیتیا اور ابخازیہ جارجیا کی بین الاقوامی طور پر تسلیم کی گئی سرحدی حدود میں ہیں۔


جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا کہ روس کا فیصلہ علاقائی سالمیت کے حوالے سے بنائے گئے بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے اور اس وجہ سے قابل مذمت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یورپی یونین کو متحد ہو کراس کے خلاف اقدامات اٹھانے ہونگے۔ جرمن وزیرخارجہ فرنک والٹر شٹائن مائر نے کہ روس کے اس اقدام سے قفقاز تنازعہ کا حل تلاش کرنا اوربھی مشکل ہو گیا ہے۔

Deutschland Außenminister Frank-Walter Steinmeier zu Georgien und Russland
جرمن وزیر خارجہ فرنع واٹر شٹائن مائرتصویر: AP


روسی صدردمتری مید وی اے دیف نے تمام تردباؤ کومسترد کرتے ہوئے کہا کہ 1991 میں بھی جارجیا اس طرح کی ایک کاروائی کر چکا ہے۔ اس وقت بھی ماسکو حکومت نے ابخازیہ اوراوسیتیا کے عوام کو کچلنے کی یہ کوشش ناکام بنائی تھی۔ مید وی اے دیف نے کہا کہ اس مرتبہ بھی تبلیسی حکومت نے ان علاقوں پر قبضہ کرنے کے کوشش میں جنگ شروع کی تھی جس میں سینکڑوں روسی شہری ہلاک ہوئے اوراب مزید ہلاکتوں کو روکنے کے لئے روس کا یہ اقدام اٹھانا ضروری ہو گیا تھا۔