1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس: گھریلو تشدد پر سزا ختم کرنے کے لیے قانون کی تجویز

صائمہ حیدر
23 جنوری 2017

روس میں اپنی شریک حیات کو ایک آدھ طمانچہ رسید کر دینا بہت سے افراد کے لیے اچنبھے کی بات نہیں۔ تاہم توقع ہے کہ روسی پارلیمنٹ رواں ہفتے اس عمل کو نا قابلِ تعزیر بنانے کے لیے بھی اقدام اٹھانے والی ہے۔

https://p.dw.com/p/2WErD
Symbolbild Menschenhandel Zwangsprostitution
سن 2013 میں جاری ہوئی ایک رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر نو ہزار کے قریب روسی خواتین گھریلو تشدد کے واقعات میں ہلاک ہوئیںتصویر: Fotolia/Yuri Arcurs

گھریلو تشدد کرنا روس میں ایک مجرمانہ فعل ہے تاہم بیس فیصد روسی باشندوں کی رائے میں کبھی کبھار اپنے شریکِ زندگی اور بچوں کو زدوکوب کرنا ایسا غلط بھی نہیں۔ قدامت پسند ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے روسی پارلیمان کے ایوانِ زیریں میں پارلیمنٹ کے نمائندوں نے ایک ایسے قانون کی ابتدائی طور پر منظوری دی ہے جس کی رو سے روس میں گھریلو تشدد قابلِ سزا جرم نہیں رہے گا۔

 اس تجویز کو بروز بدھ بتاریخ 25 جنوری ’دوما‘ یعنی روسی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں غوروخوص کے لیے پیش کیا جائے گا جہاں اس کے مسودے میں ردوبدل ممکن ہو گا۔ تیسری بار جائزے اور مسودے پر بحث کے بعد اس کی منظوری دے دی جائے گی۔ دوما میں متفقہ منظوری کے بعد یہ قانونی مسودہ پارلیمان کے ایوانِ بالا میں بھیجا جائے گا اور حتمی منظوری کے لیے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے پاس جائے گا۔

روس میں گھریلو تشدد پر ڈیٹا اگرچہ غیر واضح ہے تاہم روسی وزارتِ داخلہ کے اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں ہونے والے تمام متشدد جرائم کے 40 فیصد کا ارتکاب گھر کی چار دیواری میں کیا جاتا ہے۔

Symbolbild Gewalt Frauen Schutz
روس میں گھریلو تشدد پر سزا ختم کرنے کے لیے قانونی مسودہ تیار کیا گیا ہےتصویر: picture-alliance/PIXSELL/Puklavec

سن 2013 میں جاری ہوئی ایک رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر  نو ہزار کے قریب روسی خواتین گھریلو تشدد کے واقعات میں ہلاک ہوئیں۔ گزشتہ موسمِ گرما میں روسی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں جسم کو نقصان نہ پہنچانے والے تشدد کو نا قابل تعزیر قرار دیا گیا تھا تاہم خاندان کے افراد کی جانب سے کیے جانے والے تشدد پر فوجداری الزامات برقرار رکھنے کو کہا گیا تھا۔

 اس عدالتی حکم نامے پر اعتراض کرتے ہوئے قدامت پسند سماجی کارکنوں کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کی رُو سے اگر والدین اپنے بچے کو مارتے ہیں تو انہیں اس پر ایک باہر کے شخص کے یہی عمل کرنے کی نسبت زیادہ سخت سزا دی جا سکتی ہے۔

 اسِ عدالتی فیصلے کے بعد ہی گھریلو تشدد کو ناقابلِ تعزیر قرار دینے کے حوالے سے قانون بنانے پر بات چیت کا آغاز ہوا۔ گزشتہ برس کے آخر میں سالانہ نیوز کانفرنس کے موقع پر ایک قدامت پسند اشاعتی ادارے کے صحافی نے روسی صدر پوٹن سے کہا،’’ اگر ایک روایتی روسی باپ اپنے بچے کو اچھی بات کی تعلیم دینے کے لیے مارتا ہے تو اس کی سزا دو سال قید ہے لیکن یہی فعل اگر اس کا کوئی پڑوسی انجام دے تو اسے معمولی جرمانہ لے کر چھوڑ دیا جائے گا۔‘‘ اس پر پوٹن کا کہنا تھا،’’ بہتر تو یہی ہے کہ بچوں کو نہ مارا جائے تاہم ہمیں گھریلو تشدد پر سزا کے حوالے سے بہت آگے جانے کی ضرورت نہیں۔ یہ اچھی چیز نہیں اور اس سے خاندانوں کو نقصان پہنچتا ہے۔‘‘