1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رومانیہ میں صدارتی انتخابات، ووٹنگ مکمل

22 نومبر 2009

رومانيہ ميں آج بائیس نومبر کو صدارتی انتخابات کے لئے ووٹ ڈالے گئے۔ اس یورپی ملک میں اٹھارہ ملین سے زائد رائے دہندگان ہیں۔

https://p.dw.com/p/Kcuu
صدارتی امیدوار میرسیا گیورانا درمیان میں لال ٹائی پہنے ہوئےتصویر: AP

يہ ملک شديد اقتصادی اور سياسی بحران ميں گھرا ہوا ہے اور کئی ہفتوں سے وہاں ايک اقليتی عبوری حکومت قائم ہے۔ اب تک ايک نئی حکومت قائم نہیں ہوسکی ہے اور صدر اور پارليمنٹ ايک دوسرے کی راہ روکے ہوئے ہیں۔

رومانيہ يورپی يونين کا ايک نيا رکن ملک ہے۔ اس کے صدارتی انتخابات يورپی يونين کے نئے رکن ممالک کے سياسی طبقوں کی اصلاحات پر آمادگی کی کسوٹی سمجھے جاتے ہيں۔ تاہم رومانيہ گزشتہ کئی ہفتوں سے شديد سياسی بحران کا شکار ہے اور اسے اس سے نکلنے کے لئے کوئی راستہ نہيں مل پا رہا ہے۔ اکتوبر کے شروع ميں لبرل ڈيموکريٹس کی اقليتی حکومت کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذريعے نا منظور کرديا گيا تھا۔ اس کے بعد سے وہ عارضی طور پر حکومت کے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔

Traian Basescu Präsident Rumänien
رومانی صدر تریان بيسيسکوتصویر: picture-alliance/ dpa

صدر اور پارليمنٹ ہر قدم پر ايک دوسرے کا راستہ روک رہے ہيں، جس کی وجہ سے صورتحال ڈرامائی حد تک خراب ہوچکی ہے۔ رومانيہ کے صحافی روگو سانو کہتے ہیں:’’دونوں بڑی جماعتوں، پی ڈی ايل اور پی ايس ڈی نے پچھلے پارليمانی انتخابات ميں تيس تيس فيصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ چھ ہفتے قبل ان کی مخلوط حکومت کا خاتمہ ہوگيا۔ اب انتخابات ميں ايک سخت مقابلہ ہےاور نتيجہ يہ ہے کہ اگلے سال کا بجٹ تک منظور نہیں ہوسکا ہے۔ ميرے خيال ميں يہ کوئی سياسی مقابلہ نہيں ہے بلکہ معاشی اقتدار کی جنگ ہے، جس ميں دو بڑے اقتصادی ادارے آپس ميں لڑ رہے ہيں۔‘‘

اس رسہ کشی کی وجہ سے رومانيہ کے عوام ميں سياست سے بيزاری ايک نئے نقطہء عروج کو پہنچ چکی ہے۔ ووٹ نہ ڈالنے کا فيصلہ کرنے والوں کی تعداد اتنی زيادہ ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنی نہيں تھی۔ ايسے ووٹروں کا تناسب 50 فيصد سے بھی زيادہ ہے۔ اندازہ ہے کہ موجودہ صدر باسيسکو اور ان کے سوشل ڈيموکريٹ حريف گيوآنا ميں سخت مقابلہ ہوگا۔ لبرل اميدوار انتونيسکو، ووٹروں ميں مقبوليت کے لحاظ سے تيسرے نمبر پر ہيں۔

Rumänien Bukarest Demonstration Solidarität mit Moldau Moldawien
تصویر: Cristian Stefanescu

انتخاباتی مہم ميں صدارتی اميدواروں نے ايک دوسرے پر بہت شديد تنقيد کی۔ ليکن ملک کے حقيقی مسائل پر کچھ نہيں کہا جارہا ہے حالانکہ مسائل کی کمی نہيں ہے۔ عالمی مالياتی فنڈ نے رومانيہ ميں طاقت کی داخلی کھينچا تانی کی وجہ سے امدادی فنڈ کی رقوم کا ايک حصہ روک ليا ہے۔ تاہم رومانيہ کو رياست کے نا دہندہ ہوجانے سے روکنے کے لئے اس رقم کی اشد ضرورت ہے۔ رشوت اور بدعنوانی کا عالمی جائزہ لينے والی تنظيم ايمنيسٹی انٹرنيشنل کے مطابق يونان اور بلغاريہ کے علاوہ رومانيہ يورپی يونين کا سب سے زيادہ کرپٹ ملک ہے۔

تاہم صدارتی اميدواروں کے لئے يہ سب کچھ غير اہم معلوم ہوتا ہے۔ وہ ملک کے اہم مسائل پر توجہ دينے کے بجائے کھلے عام ايک دوسرے پر کيچڑ اچھالنے، ووٹروں کو دھوکہ دينے اور ملکی دولت کو لوٹنے کی کوشش ميں مصروف ہيں۔ موجودہ صدر بيسيسکو کہتے ہیں:’’ميرا پانچ سالہ دور صدارت ختم ہورہا ہے۔ يہ ايک مشکل دور تھا۔ پارليمانی اکثريت نے ہميشہ ميری اصلاحات کی مخالفت کی اور ميڈيا اداروں نے ميرے اُن اقدامات تک کی حمايت نہيں کی، جو قومی مفاد ميں تھے۔‘‘

سوشل ڈيموکريٹ اميد وار گيوآنا، صدر کو سارے بحران کا ذمہ دار ٹھہراتے ہيں۔

صحافی روگو سانو کا کہنا ہے کہ صرف تيس فيصد کے لگ بھگ اقليت ہی ووٹ ڈالنے جائے گی۔ يہ وہ لوگ ہيں جو ہميشہ ووٹ ديتے ہیں کيونکہ ان کی پارٹياں انہیں اس کی ترغيب ديتی ہيں۔ ليکن رومانيہ کے زيادہ تر عوام سياست سے بيزار ہو چکے ہيں۔

رپورٹ: وياد مکسچ، بخارسٹ/شہاب احمد صدیقی، بون

ادارت: گوہر نذیر گیلانی