1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روٹرڈم کے مسلمان میئر: ذاتی تجربات سے مہاجرین کی مدد تک

عاصم سليم20 اکتوبر 2015

يورپی يونين کے رکن ممالک مہاجرين کے معاملے پر منقسم ہيں۔ ايسے ميں ترک وطن کے پس منظر والے ہالينڈ کے پہلے مسلمان ميئر پناہ گزينوں کے ليے اميد کی کرن ثابت ہو رہے ہيں۔

https://p.dw.com/p/1Gqxb
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Maat

احمد ابو طالب نے قريب چار دہائيوں قبل اپنا آبائی ملک مراکش چھوڑا تھا اور وہ 2009ء سے ہالينڈ کے شہر روٹرڈم کے ميئر ہيں۔ مہاجرين کے بحران کے بارے ميں نيوز ايجنسی اے ايف پی سے بات چيت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’ميرے پاس کوئی حل تو نہيں۔ بس اپنے تجربات اور وہ پاليسی ہے جو ميرے شہر ميں نافذ العمل ہے۔‘‘ ابو طالب کسی انجان ملک ميں ايک اجنبی کی حيثيت سے رہنے کے تجربے سے گزر چکے ہيں۔

روٹرڈم کے ميئر ويسے تو پہلے ہی کافی مقبول تھے تاہم ان کی اس مقبوليت کو چار چاند اس وقت لگے، جب انہوں نے رواں سال جنوری ميں فرانسيسی طنزيہ جريدے شارلی ايبدو کے خلاف حملے پر براہ راست نشريات کے دوران يہ کہہ ڈالا کہ ’جن مسلمانوں کو مغربی ثقافت پسند نہيں، وہ اپنا بوريا بستر بند کريں اور يہاں سے دفع ہو جائيں۔‘‘

54 سالہ ابو طالب کا ماننا ہے کہ کسی فرد کو يہ حق نہيں کہ وہ تشدد کو بروئے کار لاتے ہوئے دوسروں پر اپنے عقائد مسلط کرے اور جمہوريت کی دھجياں اڑا دے۔ حملے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا مزيد کہنا تھا، ’’ہم ان لوگوں کے بارے ميں بات کر رہے ہيں جو دوسروں کو ڈرا دھمکا رہے ہيں، نہ صرف اس ليے کہ وہ بنياد پرست خيالات کے حامل ہيں بلکہ اس ليے بھی کہ وہ اپنے مقاصد کو جائز قرار دينے کے ليے سچائی کو ايک نيا رخ دے ديتے ہيں۔‘‘

روٹرڈم کے ميئر مزيد کہتے ہيں، ’’اگر کوئی شخص چوبيس گھنٹے عبادت کرنا چاہتا ہے، تو اس ميں کيا برائی ہے؟‘‘ ان کا کہنا ہے کہ ايک ميئر کے طور پر انہيں انقلابی سوچ رکھنے والے افراد پسند ہيں۔ اپنی نکتے کی وضاحت کے ليے انہوں نے کہا کہ تہذيب اور ثقافت کو آگے بڑھانے کے معاملے ميں انقلابی سوچ ہی کی بدولت ہم پتھر کے دور سے آگے بڑھے ہيں۔

Flüchtlinge Deutschland
تصویر: Reuters/F. Bensch

ابو طالب نے يورپ کی سب سے بڑی بندرگاہ والے شہر روٹرڈم کے ميئر کی ذمہ داری جنوری 2009ء ميں سنبھالی تھی۔ کسی وقت يہ شہر قومی سطح کی مہاجرت مخالف تحريک کے آغاز کے ليے مشہور تھا۔ تاہم سن 2002 ميں انتہائی دائيں بازو کے سياستدان Pim Fortuyn کے قتل کے بعد کشيدگی ميں کافی کمی رونما ہوئی ہے۔ تاہم اب چونکہ رواں سال کے اختتام تک ہالينڈ ميں بھی قريب ساٹھ ہزار پناہ گزين پہنچ چکے ہوں گے، يورپ کے ديگر حصوں کی طرح ہالينڈ ميں بھی مہاجرين کے حوالے سے لوگوں کے تاثرات بدل رہے ہيں۔

حال ہی ميں روٹرڈم پہنچنے والے چند پناہ گزينوں کو رہائش فراہم کرنے کے شہری انتظاميہ کے فيصلے پر ميئر ابو طالب پتھراؤ سے بال بال بچ بھی چکے ہيں۔ ايک سنی امام کے بيٹے ہونے کے ناتے وہ اسلام کے حوالے سے غلط فہميوں اور معلومات کی کمی کے مسئلے کے حل کی کوشش ميں ہيں۔ انہوں نے کہا کہ لفظ ’جہادی‘ کو بالکل ہی غلط انداز ميں ليا جا رہا ہے۔ ان کا مزيد کہنا تھا، ’’ميں بھی جہادی ہوں کيونکہ ميں پورے کے پورے دن اپنے شہر کے ليے وہ کرتا ہوں جو درست ہوتا ہے۔‘‘ انہوں نے واضح کيا کہ جہادی لفظ کے 68 معنی ہيں۔ ابو طالب نے سرکاری ليڈران، تجزيہ کاروں اور اثر و رسوخ کے حامل تمام افراد پر زور ديا کہ وہ لوگوں کو اس بارے ميں معلومات فراہم کريں۔

احمد ابو طالب مراکش کے شہر Beni Sidel ميں 1961ء ميں پيدا ہوئے تھے اور پندرہ برس کی عمر ميں ہالينڈ آئے تھے۔ 170 مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے تقريبا چھ لاکھ آبادی والے شہر روٹرڈم ميں ان کی اچھی کارکردگی کے سبب وہ ليبر پارٹی ميں ايک ابھرتے ہوئے ستارے کی مانند ہيں اور امکان ہے کہ وہ اگلے ملکی وزير اعظم کے ليے بھی اميدوار ہو سکتے ہيں۔