1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روہنگيا مسلمانوں کے ليے ايک در کُھل گيا

عاصم سلیم
2 اکتوبر 2017

فوج کی جانب سے مبينہ کريک ڈاؤن کے نتيجے ميں فرار ہو کر بنگلہ ديش ميں پناہ لينے والے روہنگيا مسلمانوں کو ميانمار واپس لانے کے ليے تيار ہو گيا ہے تاہم تاحال يہ واضح نہيں کہ اس مجوزہ منصوبے کو کس طرح آگے بڑھايا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/2l6AL
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/Dar Yasin

ميانمار کے ايک سينئر وزير نے عنديہ ديا ہےکہ ان کی حکومت پناہ کے ليے بنگلہ ديش فرار ہو جانے والے لاکھوں روہنگيا مسلمانوں کو واپس ميانمار ميں آباد کرنے کو تيار ہے۔ يہ بات بنگلہ ديشی وزير خارجہ اے ايچ محمود علی نے پير دو اکتوبر کو بتائی ہے۔ علی نے ميانمار کی نوبل امن انعام يافتہ خاتون رہنما آنگ سان سوچی کے ايک نمائندے کے ساتھ دارالحکومت ڈھاکا ميں رواں ہفتے کے آغاز پر بات چيت کے بعد يہ بيان ديا۔ ان کے بقول بات چيت دوستانہ ماحول ميں ہوئی، جس کے بعد روہنگيا مسلمانوں کی واپسی کے ليے ميانمار کی جانب سے ايک منصوبہ سامنے آيا۔ بنگلہ ديشی وزير خارجہ نے مزيد بتايا کہ اس سلسلے ميں ايک گروپ تشکيل دے ديا گيا ہے، جس کے ارکان روہنگيا کی واپسی کے عمل کو آگے بڑھائيں گے۔

 

ميانمار ميں فوجی دستوں کی مبينہ کارروائيوں يا کريک ڈاؤن کے نتيجے ميں راکھين رياست ميں رہائش پذير پانچ لاکھ سے زائد روہنگيا مسلمان پچھلے پانچ ہفتوں کے دوران اپنا گھر بار چھوڑ کر بنگلہ ديش فرار ہو گئے۔ بنگلہ ديش ميں يہ پناہ گزين عارضی کيمپوں ميں گزر بسر کر رہے ہيں اور حکام کو خوراک کی قلت، رہائش کی عدم دستيابی جيسے بہت سے انتظامی مسائل کا سامنا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ ڈھاکا حکومت روہنگيا کی واپسی کا مطالبہ کرتی آئی ہے۔

يہ امر اہم ہے کہ آنگ سان سوچی نے پچھلے ماہ اپنے ايک خطاب ميں يہ حامی بھر لی تھی کہ ان کا ملک روہنگيا مسلمانوں کو واپس لينے کو تيار ہے تاہم انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ صرف ان افراد کو واپس ميانمار ميں آباد کيا جائے گا، جن کی شناخت کی تصديق کی جا سکتی ہو۔ سوچی کے بقول يہ سن 1993 ميں ميں طے شدہ طريقہ ہائے کار کے مطابق ہی ہو گا، جب لاکھوں روہنگيا کو واپس بھيج ديا گيا تھا۔

پير کے روز ہونے والی بات چيت ميں بنگلہ ديشی وزير خارجہ نے روہنگيا کی واپسی کے بارے ميں ايک منصوبے کے بارے ميں تو آگاہ کيا تاہم انہوں نے يہ نہيں بتايا کہ يہ عمل کب اور کيسے شروع ہو گا۔ يہ بھی تاحال واضح نہيں کہ ينگون حکومت صرف پانچ لاکھ پناہ گزينوں کو ہی واپس لے گی يا پھر ان تين لاکھ کے قريب مہاجرين کی واپسی کا بھی کوئی امکان ہے، جو ميانمار ميں سابقہ برسوں ميں تشدد سے فرار ہو کر بنگلہ ديش ميں پناہ ليے ہوئے ہيں۔

بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مہاجرین کے مصائب