1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روہنگيا مہاجرين کی ’رضاکارانہ اور محفوظ‘ وطن واپسی

عاصم سلیم
21 نومبر 2017

ميانمار کی رہنما آنگ سان سوچی نے اميد ظاہر کی ہے کہ ڈھاکا حکومت کے ساتھ بات چيت کے نتيجے ميں پچھلے تين ماہ ميں بنگلہ ديش ہجرت کرنے والے روہنگيا مسلمانوں کی ’رضاکارانہ و محفوظ انداز ميں‘ وطن واپسی ممکن ہو سکے گی۔

https://p.dw.com/p/2ny4Y
Bangladesch | Rohingya-Flüchtlingslager rund um Cox's Bazar
تصویر: DW/ P. Vishwanathan

آنگ سان سوچی نے کہا ہے کہ وہ اميد کرتی ہيں کہ روہنگيا مہاجرين کی ميانمار واپسی کے ليے جلد ہی سمجھوتے کی يادداشت پر دستخط ہو جائيں گے، جس کے نتيجے ميں پناہ کے ليے بنگلہ ديش فرار ہونے والے تمام افراد کی واپسی ممکن ہو سکے گی۔ سوچی نے يہ بيان آج منگل کی صبح ملکی دارالحکومت ميں ديا۔

نوبل امن انعام يافتہ رہنما کا مزيد کہنا تھا کہ ميانمار اس سلسلے ميں سن 1990 کی دہائی کے اسی سمجھوتے کے فريم ورک کو بروئے کار لائے گا، جس کے تحت اس وقت روہنگيا مسلمانوں کی وطن واپسی ہوئی تھی۔ اس وقت بھی ہزاروں روہنگيا نسلی تشدد سے فرار ہو کر بنگلہ ديش ہجرت کر گئے تھے۔

رواں سال اگست ميں ميانمار کی فوج نے شمالی راکھين رياست ميں باغيوں کے خلاف آپريشن شروع کيا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک قريب چھ لاکھ روہنگيا مسلمان پناہ کے ليے بنگلہ ديش فرار ہو چکے ہيں اور اس وقت کوکس بازار کے علاقے ميں ايک کافی بڑے مہاجر کيمپ ميں مقيم ہيں۔

ميانمار سے فرار ہونے والے افراد ملکی فوج پر جنسی زيادتی، تشدد اور قتل عام کے الزامات عائد کرتے ہيں جبکہ فوج ايسے الزامات مسترد کرتی ہے۔ اقوام متحدہ ميں انسانی حقوق کے ادارے اور کئی غير سرکاری تنظيميں ميانمار ميں فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگين خلاف ورزيوں کی طرف اشارہ کر چکی ہيں، جس سبب خاتون رہنما آنگ سان سوچی کافی تنقيد کی زد ميں رہی ہيں۔

سوچی نے منگل کے روز بتايا کہ تاحال يہ واضح نہيں کہ دونوں حکومتيں مہاجرين کی واپسی کے ليے کسی ڈيل کو حتمی شکل دينے سے کتنی دور ہيں۔ میانمار کے دارالحکومت ميں ايشيائی و يورپی اہلکاروں کے اجلاس کے موقع پر سوچی نے البتہ واضح کيا کہ راکھين ميں انسانی حقوق کی خلاف ورزياں ہوئی ہيں يا نہيں، يہ تو انہيں نہيں پتہ ليکن يہ نہ ہوں، اس کو يقينی بنانا ان کی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ميانمار کے وزير خارجہ نے بھی اس موقع پر کہا کہ ان کا ملک روہنگيا مہاجرين کی وطن واپسی کو يقينی بنانے کے ليے ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے۔ تاہم ان کا يہ بھی کہنا تھا کہ مسائل ختم ہونے ميں وقت لگتا ہے۔

ميانمار کی حکومت وطن واپس جانے والے روہنگيا کہ نئے تعمير شدہ ديہاتوں ميں بسانا چاہتی ہے۔ اقوام متحدہ اس عمل کے خلاف ہے کيونکہ اس کا ماننا ہے کہ يہ ديہات مہاجر کيمپوں کی شکل اختيار کر ليں گے۔