1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روہنگیا بحران: ’اس سفاکی کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا‘

23 نومبر 2017

امریکا نے میانمار میں روہنگیا مسلم برادری کے خلاف جاری پر تشدد کارروائیوں کو ’نسل کشی‘ قرار دیا ہے۔ اس تناظر میں واشنگٹن انتظامیہ نے میانمار کے فوجی حکام کو جرمانے اور سزاؤں کی دھمکی بھی دی ہے۔

https://p.dw.com/p/2o6e3
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Aung Shine Oo

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے بقول روہنگیا کے خلاف بے رحمانہ کارروائی میں شریک تمام فوجی  اہلکاروں کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ٹلرسن نے ان ’ناقابل برداشت مصائب‘ کی ذمہ داری میانمار کی فوج اور نگرانی پر مامور مقامی نمائندوں پر عائد کی۔

میانمار کی فوج روہنگیا عسکریت پسندوں کو اس بحران کی اصل وجہ قرار دیتی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے بقول، ’’کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی کو جواز کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس دہشت ناک سفاکی کو حق بجانب قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘

ریکس ٹلرسن نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ موجودہ حقائق کا بہت باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد یہ واضح ہوا ہے کہ شمالی ریاست راکھین میں روہنگیا کی ’نسل کشی‘ جاری ہے، ’’جو بھی ان زیادتیوں میں ملوث ہے اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔‘‘ ان کے بقول امریکا میانمار پر نہیں بلکہ صرف اس تشدد میں ملوث  افراد کے خلاف پابندیاں عائد کرنا چاہتا ہے۔

میانمار کے روہنیگا راکھین ریاست سے فرار ہو کر بنگلہ دیش میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اگست سے اس ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور اب بنگلہ دیش میں روہنگیا برادری کے چھ لاکھ سے زائد افراد موجود ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ نے گزشتہ ہفتے ہی میانمار کا دورہ کیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد یہ کسی اعلی امریکی اہلکار کا اس ملک کا پہلا دورہ تھا۔ امریکی دفتر خارجہ یہ جائزہ بھی لے رہا ہے کہ کیا راکھین میں رونما ہونے والے واقعات انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے بھی آتے ہیں۔

بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مہاجرین کے مصائب