1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روہنگیا بحران: اقوام متحدہ اور میانمار میں کشیدگی بڑھتی ہوئی

31 اکتوبر 2017

انسانی ہمدردی کی بنیاد پر روہنگیا مسلمانوں کی امداد کے حوالے سے میانمار اور اقوام متحدہ کے مابین تعلقات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ اب اقوام متحدہ نے اس ملک میں ناروے کے ایک نئے رابطہ کار کو تعینات کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2mn4h
Bangladesch Rohingya-Flüchtlingslager bei Cox's Bazar
تصویر: Reuters/H. McKay

میانمار کے ساتھ کشیدہ ہوتے ہوئے تعلقات اور روہنگیا بحران سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ نے ناروے کے کنوٹ اوسٹبے کو اس ملک میں عارضی طور پر کوآرڈینیٹر تعینات کر دیا ہے۔ یہ عارضی تقرری اس وجہ سے بھی متوقع تھی کیوں کہ نیپیداو حکومت نے اپنے ملک میں اقوام متحدہ کے چیف کے عہدے کو اپ گریڈ کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق میانمار میں طاقت کا مرکز سمجھی جانے والی اور نوبل امن انعام یافتہ آنگ سان سوچی نے بھی سفارت کاروں کی ایک نجی ملاقات میں کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ اور خاص طور پر اس کے انسانی حقوق کے ادارے سے مایوس ہو چکی ہیں۔

روہنگیا کے خلاف بدھ بھکشوؤں کا مظاہرہ

ناروے کے اوسٹبے اقوام متحدہ کے ساتھ افغانستان اور مشرقی تیمور میں بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ وہ خاتون عہدیدار رینٹا لوک ڈیسلاسین کی جگہ لیں گے، جن کی مدت ملازمت مکمل ہو چکی ہے۔

اگست کے بعد سے میانمار کی ریاست راکھین میں ہونے والی پرتشدد کارروائیوں سے فرار ہوکر چھ لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیوں اور روہنگیا مہاجرین کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ راکھین ریاست میں روہنگیا کو مقامی بدھ افراد اور ملکی سکیورٹی فورسز کی طرف سے ظلم و جبر کا سامنا ہے۔

روہنگیا بچے ایک ’جہنم‘ سے گزر رہے ہیں، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے تفتیش کار اس وقت ایک منظم طریقے سے بنگلہ دیش میں موجود روہنگیا مہاجرین کے انٹرویوز کر رہے ہیں تاکہ راکھین میں ہونے والے تشدد، قتل اور عصمت دری جیسی وارداتوں کا ریکارڈ تشکیل دیا جا سکے۔ حقائق کا جائزہ لینے والی اقوام متحدہ کی ٹیم کے مطابق پچیس اگست کے بعد سے راکھین میں ہلاکتوں کی صحیح تعداد ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی ہے لیکن یہ ابھی تک کے اندازوں سے ’’کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔‘‘

دوسری جانب اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل نے ایک مرتبہ پھر میانمار کی حکومت اور فوج سے اپیل کی ہے کہ انہیں متاثرہ ریاست راکھین تک جانے کی اجازت دی جائے تاکہ ’حقائق کا پتا‘ چلایا جا سکے۔ ابتدائی تحقیقات میں اقوام متحدہ نے میانمار کی فوجی کارروائیوں کو ’نسل کُشی‘ سے تعبیر کیا ہے، جس کی میانمار کی حکومت تردید کرتی ہے۔ میانمار کا کہنا ہے کہ ان کی فوج عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے۔